ملک امریز حیدر
جس ملک میں آج ہم سکھ کا سانس لیں رہے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام پر معرض وجود میں آیا سرکار مدینہ ؐ کا اور فیضان ہے اولیاء کرام کا یہ معجزہ ہے لیکن بدقسمتی سے آج ہمارے ملک کو جس طرح بے دردی سے لوٹا اور نوچہ جا رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے ہمارے حکمران اور سیاستدان تمام کے تمام سیاستدان نہیں بلکہ کاروباری شخصیات ہیں اور ان کے آباؤ اجداد کا تحریک پاکستان میں کوئی کردار ہی نہیں کیونکہ اس وقت ان کے اجداد اس قابل ہی نہ تھے جو قوم کا لیڈر ہوتا ہے اسے روپے پیسے کا لالچ نہیں ہوتا اسے تو قوم کے دُکھوں کا مداوہ کیسے کرنا ہے یہی غم کھائے جاتا ہے اسے ارب پتی نہیں بلکہ چٹائی پر سونا پسند ہوتا ہے۔ تحریک پاکستان جب شروع ہوئی قائداعظم ؒ کے والد گرامی لاکھوں پتی تھے جبکہ قائداعظم ؒ کے پاس پورے پاکستان میں کوئی جائیداد نہیں انگلینڈ‘فرانس‘جرمنی‘دوبئی‘میں کوئی محلات نہیں تھے حضرت علامہ اقبال ؒ آپ کے رفقاء کے وارثوں کے پاس محلات نہیں ‘ لیکن روز قیامت تک نام زندہ رہیگا۔ کیونکہ وہ قوم کا درد رکھتے تھے گاندھی اور دیگر کئی رہنما ایسے موجود ہیں جنہوں نے قوم کے لیے کام کیا اور آنے والی نسلوں کے لیے عزت و وقار سے جینے کے لیے آزاد ریاستوں کے قیام کے لیے اپنا من دھن لگا دیا۔ وہ طاقتیں جو نہیں چاہتی تھی کہ پاکستان معرض وجود میں آئے۔ اُنہوں نے پاکستان بنانے والوں کو پیچھے دھکیل دیا اور ایسے لوگوں کو رفتہ رفتہ سیاست میں داخل کیا جن کی زندگی کا مشن لوٹ مار اور پیسہ بنانا تھااُنہوں نے ثابت کر دکھایا کہ پاکستان کو کسی طرح لوٹا ان ظالموں نے اس طرح تو گد بھی نہیں نوچتے مُردار کو خود تو یہ سوٹیرز لینڈ کے بنکوں میں سینکڑوں ارب ڈالر لیں گے انگلینڈ ودیگر مما لک میں اربوں ڈالر کے محلات خرید لئے پاکستان کا ہر ادارہ اربوں کے خصارے میں ہے پاکستانی معشیت تباہ کر د ی گئی بیرون ملک اربوں روپے لوٹ کر لے گئے۔ آج اندرون و بیرون ممالک نہ صرف اربوں کے مالک ہیں بلکہ خود بادشاہوں کی طرز پر زندگی گزارتے ہیں اور بیچاری 23کروڑ عوام کے پاس نہ علاج‘ تعلیم‘ روز گار‘پینے کا صاف پانی‘ انصاف‘ بجلی اورنہ ہی گیس ہے تو ان کے پاس لا چاری ‘پسماندگی حق تلفی بے روز گاری ہے ہماری سیاست سے سیاستدان ختم کر کے بزنس مین گھسا دئیے گئے۔ انہیں عوام کے دُکھوں سے غرض نہیں انہیں صرف روپے پیسے سے غرض ہے کس طرح اکھٹا ہو اور بیرون ملک شفٹ ہو چند دن قبل لاہور میں اک ناکام شو منعقد ہوا جس میں اپوزیشن کی وہ چند بلکہ 3جماعتیں اگھٹی ہوئی جو یزیدیت اور حسنیت کی جنگ پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی تحریک کے درمیان کرتی چلی آئی۔ عمران خان نے ہمیشہ آصف علی زرداری کے بارے میں وہ الفاظ استعمال کیے جو ایک مہذب معاشرہ قبول نہیں کرتا‘اسی لیے ان کا یہ شو بُری طرح فلاپ ہوا سیاستدان ان کو کہنا سیاست کی توہین ہے یہ کاروباری لوگ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال سکتے ہیں لیکن وہ عوام جن کا ضمیر زندہ ہے وہ ان کے کرتوت دیکھ رہے ہیں۔ سب سے پہلے یہ لوگ اپنی جائیدادیں اور املا دیں بیرون ممالک سے واپس لائیں سب کے سب چور ہیں فرق صرف اور صرف اتنا ہے کوئی چھوٹا ہے تو کوئی بڑا ہے۔ سب نے پاکستان سے لوٹ کر بیرون ممالک سے واپس لائیں ۔ سب نے پاکستان سے لوٹ کر بیرون ممالک اربوں کے اثاثے بنائے پاکستان نے ان کو شہرت دی عزت و دولت سے نوازا آج جس پارلیمنٹ پر یہ لعنت بھیج رہے ہیں۔ اس پارلیمنٹ نے 1985سے 2017تک شیخ رشید کو کروڑوں روپے دئیے دُنیا میں نام و شہرت دیا 9 بہن بھائیوں میں شیخ رشید کا نام ممبر پارلیمنٹ منتخب ہونے پر مشہور ہوا لال حویلی پر آج تک قبضہ رکن اسمبلی کی وجہ سے رکھا ہوا ہے۔ وگرنہ سب دُنیا کو پتہ ہے وقف املاک کی ملکیت ہے ملک میں سینکڑوں کھلاڑی موجو د ہیں۔ عمران خان کو شہرت ملی پارلیمنٹ کی وجہ سے شیخ رشید اور عمران خان نے پاکستان کے اس مقدس ادارے پر لعنت بھیجی جہاں قانون سازی ہوتی ہے۔یہ کسی عبادت گاہ سے کم نہیں یا پھر ان لاکھوں ووٹرز پر لعنت بھیجی ہے جو ان کو ووٹ دیکر ایسی جگہ بھیجتے ہیں ایک طرف وہ لعنت بھیجتے ہیں دوسری طرف پارلیمنٹ میں جانے کے لیے ترستے اور مرتے ہیں سمجھ نہیں آتی یہ کیسے صادق اور امین ہیں ۔ تمام ووٹرز ایک بار ان کو ممبر پارلیمنٹ نہ بنائیں تاکہ پارلیمنٹ پر لعنت نہ بھیجے ا وران تمام سے بیرون ممالک جائیدادیں اور پیسے واپس لانے نیشلنٹی ختم کرنے کے بعد پاکستان میں سیاست کرنے کی اجازت دی جائے ۔پاکستان پیپلزپارٹی 50سال مکمل کر چکی سوائے ذوالفقار علی بھٹو کے دو ادوار بی بی شہدا کے اور ایک یوسف رضا کیلانی کے وزارت عظمی کے کوئی خاطر خواہ کام نہ ہو سکا بے نظیر بھٹو کے دور اقتدار میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے فرزند ارجمند ممبر سندھ اسمبلی حاضر وزیر اعظم کے بھائی میر مرتضی بھٹو کو سر عام شہید کر دیا گیا۔ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کا اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں سراغ نہ لگایا گیا۔ سینکڑوں وہ لوگ جو کراچی میں مارے گئے فیکٹریوں میں جلائے گئے۔ ان کے قاتلوں کو گرفتار نہ کیا گیا۔ شہداء ماڈل ٹاؤں ایک حقیقی واقع ہے ان کے قاتلوں کو عبرت ناک سزا ملنی چائیے۔ تاکہ آئندہ وطن عزیز میں ایسے واقعات رونما نہ ہو سکیں ان شہداء کو سیاسی ہتھیار کے طور پر نہ استعمال کیا جائے بلکہ عدالت میں کیس لڑا جائے کسی کے کہنے پر ان کے ورثاء کے زخموں پر نمک نہ چھڑکا جائے 2018کے آمدہ الیکشنوں پر اعتماد کیا جائے۔ جن لوگوں کو یہ عوام ووٹ کی پرچی سے نواز سے گئی وہی لوگ اس پارلیمنٹ کا حصہ بنیں گے لعنت بھیجنے والوں کو ووٹ کی اہمیت ووٹ نہ دیکر دلائی جائے اللہ تعالیٰ وطن عزیز کو سلامت رکھے اور ایمان والے لوگوں کو حکمران بنائے۔۔۔ آمین
126