بیول ویٹرنری اسپتال فرائض کی ادائیگی میں ناکام 123

بیول ویٹرنری اسپتال فرائض کی ادائیگی میں ناکام

آج سے تین چار دہائیاں پہلے جب نہ موبائل فون تھا نہ کمپیوٹر اس وقت انسان اور انسانی رویے بہت سادہ ہوا کرتے تھے زندگی خاصی آسان تھی آج کے لحاظ سے تخواہیں اور اجرتیں کم تھیں لیکن زندگی آسان تھی۔فرض کی ادائیگی کو ذمہ داری سمجھ کر ادا کیا جاتا تھا۔مزدور پورے ایمانداری سے کام کرکے اپنی اجرت لیتا اور سرکاری ملازم ڈیوٹی کو ایمان کا حصہ سمجھ کر تنخواہ ایسا اس لیے تھا کہ معاشرے میں حرص وہوس کی گرفت رواج نہیں پاسکی تھی جیسے جیسے ترقی ہوتی گئی بے ایمانی اور ریاکاری کو بھی فروغ ملا۔حالات کی سرکشی نے انسان کو زندگی کی رعنائیوں سے دور دھکیل دیا ہے جس معاشرے میں ہم زندہ ہیں وہاں حرص وہوس نے انسان کو بری طرح سے جکڑ رکھا ہے ہم زرگری اور زرپرستی کے کسی قدر کونہیں مانتے ہمارا ایک نصب العین ہے دولت بنانا۔قوم جائے جہنم میں پاکستان کی فاقہ کش، فلاکت زدہ اور درماندہ قوم مجنونانہ اور مجرمانہ حرکات میں پھنس چکی ہے ہر محکمہ اور محکمے کے لوگ زمین پر خدا بنے نظر آتے ہیں ایک چپڑاسی جو جوانے والے سائل کو اپنے صاحب تک رسائی دینے یا دینے کی طاقت رکھتا ہے وہ بھی اپنے اس چھوئے ستیابی یار کو طاقت کے طور استعمال کرتا ہے۔آپ اس کی مرضی کے بغیر صاحب سے ملنے کا سوچ بھی نہیں سکتے منت
سماجت اور مٹھی گرم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ایسے ماحول میں سوچا جا سکتا ہے کہ افسران کی شان کیا ہوگی۔کچھ سچائیا ں اس قدر تلخ ہوتی ہیں کہ جن سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔یہ بھی ایک تلخ سچائی ہے کہ اس وقت ہمارے سرکاری ادارے اور ان میں بھاری تنخواہوں پر تعینات افسران اپنی ڈیوٹی سے روگرانی کو اپنا حق سمجھتے ہیں بیول میں قائم ویٹرنری اسپتال بارے مسلسل عوامی شکایات سامنے آرہی ہیں۔عوام الناس کی جانب سے اسپتال میں تعینات ڈاکٹر مبینہ بطور پر اپنی ڈیوٹی کے فرائض کی ادائیگی میں غفلت برتتے ہیں۔کہاجاتا ہے کہ ویٹرنری ڈاکٹر فیلڈ ورک تو بلکل ہی نہیں کرتے۔جو ان کی ڈیوٹی کا تقاضا ہے۔عوام کا یہ بھی کہنا ہے کہ جانوروں کے لیے سرکاری طور پر فراہم کی جانے والی ویکیسن بھی منظور نظر افراد کے جانوروں تک ہی محدود رہتی ہے جبکہ عام آدمی کے جانور اس سے ویکیسن سے محروم رہتے ہیں الزام لگایا جارہا ہے کہ عوام الناس کی جانب سے وزٹ کے لیے بلوانے پر حیلے بہانے تراشے جاتے ہیں۔اور یہ الزامات بڑی تواتر سے سامنے آرہے ہیں۔معاشرے اور سرکاری اداروں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے ان الزامات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ڈیوٹی سے پہلوتہی اب حق تصور کیا جاتا ہے اس کے ہٹ کر دیکھا جائے تو شہر میں گوشت کی فروخت کے حوالے سے بھی ویٹرنری اسپتال کا کردار موجود نہیں۔سلاٹر ہاوس کی عدم دستیابی کے باعث قصاب حضرات صحت کے اصولوں کو یکسر نظر انداز کرکے اپنے جانور کھلے آسمان تلے ذبح کرتے نظر آتے ہیں۔چونکہ سلاٹر ہاوس اور اس میں بنیادی سہولیات کی فراہمی یونین کونسل کی ذمہ داری ہے اس لیے قصابوں کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا تاہم ذبح کیے جانے جانوروں کو ایک روز قبل ویٹرنری ڈاکڑ سے پاس نہ کروانا خلاف قانون ہے۔رائج قانون کے تحت گوشت کی فروخت کے لیے ذبح کیا جانے والا ہر جانور ایک زوز قبل ویٹرنری ڈاکٹر سے پاس کروایا جانا لازم ہے ویٹرنری ڈاکٹر جانور کو چیک کرنے کے بعد اوکے ہونے والے جانور کے جبڑے پر آگ پر گرم کردہ مہر ثبت کرے گا اور دوسرے روز
دوکانوں پر فروخت ہونے سے قبل مہر زدہ جبڑا دیکھ کر کھال اترے جانور کے جسم کے مختلف حصوں پر اپنی مہر لگائے گا بیول میں سلاٹر ہاوس کے ہونے کے باعث اس قانون پر بھی عمل نہیں کیا جارہا۔ پاس کروانے سے ہٹ کر بیول کے ویٹرنری ڈاکٹر نے شاید ہی کبھی قصابوں کی دوکانوں کا وزٹ کرکے گوشت کا ہی معائنہ کیا ہو کیا وجہ ہے کہ قانون پر عمل نہیں کیا جاتا ضرورت اس امر کی ہے محکمہ ان الزامات کی ساکھ کو پرکھنے کے لیے محکمہ جاتی انکوئری کروائے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں