90

بیول مرکز صحت میں علاج ومعالجہ کی سہولیات کا فقدان

چھہتربرس ہوئے اس نام نہاد جمہوریت کا سفر جاری ہے پرانے چہرے جاتے ہیں نئے چہرئے عوامی خدمت کا دعویٰ لیے ان کی جگہ سنبھال لیتے ہیں لیکن کسی دور میں بھی عوامی مفادات کے فیصلے سامنے نہیں آتے

یہ سب گاؤ و خر رفت والا معاملہ بنا ہوا ہے کاش آئینی موشگافیوں اور ذاتی منفعتوں میں شب وروز سر گھپانے والے ہمارے رہنماء ہمارے منصف اور ہمارے چوکیدار بلندیوں سے نیچے اتر کر ان کا حال بھی دیکھیں جو اپنی معاشی ابتری سے بے حال ہیں جنھیں مہنگائی نوچ رہی ہے

جنھیں نہ صاف پانی میسر ہے نہ ملاوٹ سے پاک اشیاء خوردو نوش.انہیں تو علاج جیسی بنیادی سہولت تک میسر نہیں۔بیول بی ایچ یو کو ہی لے لیں جسے یہاں سے منتخب ہونے والے ایم پی اے جاوید کوثر کی جانب سے چوبیس گھنٹے سروس پر اپ گریڈ کروایا گیا اور اس کارنامے پر فخر بھی کیا گیا

لیکن اسپتال کو 24 گھنٹے سروس پر اپ گریڈ کروانے کے بعد اضافی دو شفٹوں کے لیے نہ عملہ لیا گیا نہ ڈاکٹرزبلکہ اسپتال میں گذشتہ کئی برسوں سے بی ایچ یو بیول میں ڈاکٹر سرے سے موجود ہی نہیں اسپتال میں ایک ایل ایچ وی اور ایک ڈسپنسر او پی ڈی چلا رہے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے

اسی سیچویشن میں اسپتال کو چوبیس گھنٹے پر منتقل کروانے کا عوام کو کیا فائدہ ہوااس سے کہیں زیادہ سنگین مسئلہ بیول اور گرد ونواح میں عطائی ڈاکٹروں کی موجودگی ہے جو انسانی جانوں سے کھلواڑ کررہے ہیں محکمہ صحت کی مجرمانہ غفلت کے باعث تحصیل گوجرخان میں عطائیوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جن کی پریکٹس سے مختلف جان لیوا بیماریاں پھیلنے کے خطرات موجود ہیں

انسان کی حرص اور بے پناہ دولت کمانے کے لیے غیرقانونی اور غیر شرعی طریقوں پر عمل دنیا کا دستور بن چکا ہے جس کے باعث انسان کائنات کی خوبصورتی کو اپنے گھناونے اعمال وفعل سے بدصورتی میں بدلنے کی کوشش میں مصروف ہے حکومتی سطح سے لے کے نچلی سطح تک صرف غریبوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے اس ملک کے حاکموں اور ان کے حریفوں نے اور حکمتوں نے عوام کی زندگیوں کو جہنم بنا دیا ہے

ہمارے معاشرے کے تلخ پہلوں اور رویوں پر پردہ پڑا ہوا ہے زندگی کی تلخ حقیقتوں کو خیالوں میں دفن کرنے اور خیالوں کو حقیقت کا روپ دے کر اذیت کے آستانوں پر اپنے بستر سجائے محرومیوں کے مزارات پر اپنی بے بسی کا ماتم کرنے والی قوم گذشتہ سات دہائیوں سے اپنے حقوق سے بے

خبر ہو کر حقوق پر چھینے والوں کی مدسرائی پر مبنی گانوں اور ترانوں پر محو رقص ہیں ہم میں سے کوئی نہیں جس نے کبھی اپنے منتخب نمائندے سے ہوچھا ہو کہ آخر چوبیس گھنٹے سروس فراہم کرنے والے بی ایچ یو میں ڈاکٹر کیوں نہیں ہے

کسی نے علاقے میں بیماریاں پھیلانے والے عطائیوں کے خلاف آواز نہیں اُٹھائی.یاد رکھیں جب تک ہم اپنے حقوق کے حصول کیخ اطر آواز نہیں اُٹھائیں گے ہمیں حقوق نہیں ملیں گے اور ہماری آئندہ آنے والی نسلیں ان سیاست دانوں کی آنے والی نسلوں کی غلام ہوں گی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں