معاشی عدم استحکام کے باعث صرف2024 میں ہزاروں کمپنیاں اور لاکھوں افراد ملک چھوڑ گئے۔کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار درآمدات اور برآمدات میں توازن قائم رکھنے میں ہوتا ہے۔
وطن عزیز کو قائم ہوئے سات دہائیاں سے زیادہ کا عرصہ گزر ہے اور کسی بھی ملک کو ترقی یافتہ ہونے میں اس سے زیادہ وقت قطعا درکار نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں کئی ممالک کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ چین 1949میں آزاد ہوا اور پوری دنیا آج چینی مصنوعات کے دم پہ جی رہی ہے
۔تقسیم کے وقت ہمارا ہمسایہ ملک بھارت گو کہ آبادی کے اعتبار سے ہم کئی گنا بڑا ہے وہاں ترقی میں ہر شعبہ ہم سے آگے ہے۔ صرف آئی ٹی کی برآمدات ہی ہمارے کل اثاثوں سے زیادہ ہے۔
ہم سے جدا ہونے والا ہمارا ٹکڑا بنگلہ دیش بھی اس وقت قومی خزانے میں ہم سے بہت آگے جاچکا ہے۔ عرب ممالک جہاں ریت کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ سعودی عرب دبئی سمیت دوسرے ممالک کے باشندے کراچی آکر حیران تھے جہاں کسی وقت ترقی کا دور دورہ تھا۔ گاڑیوں کی ریل پیل تھی۔
ابھی 1970کے اوائل کی ہی بات ہے عرب امارات کی سات ریاستیں متحدہ ہوکر متحدہ عرب امارات بنا اور آج پوری دنیا کا کاروبار اور سیاحت کا مرکز ہے۔آج کے جدید دور میں کسی بھی ملک کی ترقی کا راز جاننا مشکل نہیں۔ انکی پالیسی اور قانون اور حکومت کی مقامی اور باہر کے افراد کیلئے سہولیات دیکھ کر رشک آتا ہے
۔ لیکن وطن عزیز میں ترقی کرتے کرتے ہم ایک ایسی جگہ پھنس چکے ہیں جہاں سے نکلنے کیلئے وقت اور کثیر زرمبادلہ کیساتھ سیاسی استحکام بھی شدت کی ضرورت ہے۔
آزاد ہوتے ہی ہم پہ مہاجرین کا بوجھ آ پڑا اور ساتھ ہی کشمیر کے محافظ پہ جنگ کا طبل بھی بجا۔ یوں نئی ریاست کو مزید نقصان اور کشمیر پہ قبضے کا امتحان دینا پڑا۔ فوج اسلحہ اور وسائل نہ ہونے کیوجہ سے سیز فائز نے پاکستان
کو ایک تہائی کشمیر دلا دیا۔ جنگیں ملک کی کمر توڑ دیتی ہیں۔
نئی نویلی دلہن کیساتھ یہ ظلم بہت مہنگا اور اسکا اثر تادیر رہا۔پاکستان کی تاریخ میں کوئی دہائی ایسی گزری نہیں جب ہمیں کسی سانحے کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔ کبھی جنگ کی شکل میں کبھی قیادت قتل اور کبھی مارشل لاء کی آمد۔پاکستان کی ترقی پچاس کی دہائی سے ساٹھ کی دہائی تک حوصلہ افزا تھی
۔ پانچ سالہ پروگرام کی کامیابی اور جرمنی کو قرضہ دینا ان دنوں کی ہی بات تھی۔ ملک ترقی کی راہ پہ گامزن تھا۔ ریلوے، پی آئی اے سمیت دیگر تمام ادارے بہترین مثال تھے بلکہ چین سعودی عرب دبئی سمیت کئی دوسرے ممالک کو کھڑا کرنے میں پاکستان میں بہت کردار ادا کیا۔پھر کیا ہوا کہ جو ملک دوسروں کی مدد کرتا خود ترقی کی راہ بھول گیا۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں تمام شعبوں کا کردار اہم ہوتا ہے۔
چین بھارت اور بنگلہ دیش نے سمال بزنس تکنیک سے ترقی کی۔ جو کہ ملکی ضروریات کیساتھ ایکسپورٹ بھی کرتا ہے۔پاکستان معدنی دولت سے مالا مال ملک ہے تاہم آج تک اسکا فائدہ ملتا نظر نہیں آرہا جو ملکی وسائل میں اضافہ کرے یا قابل ذکر ایکسپورٹ آمدن لائے۔ تیل کوئلہ گیس سونا چاندی قیمتی پتھر اور نمک کی سب سے بڑی کان بھی وطن عزیز میں موجود ہے۔ اس قدر وسائل ہونے باوجود ملک کی ترقی میں ان وسائل کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔
آخر انکی آمدن کہاں جاتی ہے۔ستر کی دہائی میں پاکستانیوں کا بیرون ملک جانا شروع ہوا۔ جو آج تک جاری ہے۔ پوری دنیا میں 1 کروڑ 35لاکھ کے قریب پاکستانی روزگار کی سلسلے میں رہائش پزیر ہیں۔ تاہم بیرون ملک جانے کا یہ سلسلہ اوسطا 2024 میں تمام حدیں ہار گیا۔سال 2019 سے اگست 2024تک 32 لاکھ 75 ہزار پاکستانی ملک چھوڑ گئے۔23 کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران 4 لاکھ 50 ہزار پاکستانی بیرون ملک منتقل ہوئے۔
سال 2022 میں 8 لاکھ سے زائد پاکستانی روزگار کے سلسلے میں بیرون ممالک منتقل ہوئے تھے جو کہ 2016 کے بعد سب سے بڑی تعداد تھی۔سال 2016 میں پاکستان سے 8 لاکھ 39 ہزار افراد بیرون ممالک منتقل ہوئے تھے جب کہ 2017 اور 2018 میں پاکستان سے بیرون ممالک منتقل ہونے کے خواہش مند افراد میں نمایاں کمی دیکھی گئی تھی۔پچھلے دس سال میں 75 لاکھ سے زائد پاکستانی ملک چھوڑ گئے جسکی سب سے بڑی وجہ عدم سیاسی و معاشی استحکام ہے۔اگر صرف دو سال کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے
کہ دو سالوں میں پاکستان سے 16 لاکھ 94 ہزار سے زائد رجسٹرڈ افراد ملازمتوں کی غرض سے مختلف ممالک میں سکونت اختیار کر چکے ہیں۔ جب کہ غیر قانونی طور پر جانے والے پاکستانیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں بتائی جاتی ہے۔ عام پاکستانیوں کیساتھ بڑی بڑی انٹرننشنل فرم اور کمپنیاں ٹیلی نار، شیل ٹوٹل، فارما کمپنی فائز، تیل گیس کی تلاش کرنے والی کمپنیاں، ای کامرس سے متعلق کام کرنی والی، 8ہزار سے کمپنیاں صرف 2024 میں ملک چھوڑ کر جاچکی ہیں۔بیرون ملک پاکستانی کثیر زرمبادلہ بھیجتے ہیں جس سے ملک چلتا ہے
۔ تاہم ملک سے زیادہ افراد کا باہر چلے جانا اس بات کی علامت ہے کہ مقامی سطح پہ کاروبار مشکلات کا شکار ہے، اخراجات زیادہ اور آمدن کم ہے۔ پاکستان ہمیشہ آئی ایم ایف کی مدد سے ملک چلاتا رہا تاہم اس بار وزیراعظم کا کہنا کہ یہ آخری پروگرام ہوگا۔ ارباب اختیار کو کم از کم وقت میں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا
کہ کاروبار کرنے کے وسیع مواقع اور وسائل ہوں تاکہ عام آدمی کیساتھ بین الاقوامی کمپنیاں بھی پاکستان کا رخ کریں، سمال بزنس کو عام کریں آسان قرضے کی ذریعے گھر کی سطح پہ بزنس کھولیں جائیں،زراعت، سبزی فروٹ، ڈیری اور فارمنگ کو اپنایا جائے۔