بھینس کے آگے بین 131

بھینس کے آگے بین

جس ملک میں علم کو مفادات کی زنجیروں میں جکڑ جہالت کے روبرو پیش کیا جائے ، تحقیق اور جستجو سیاسی خواہشات کی نذر کر کے اہل ثروت دست بدست کھڑے ہوں تو وہی حشر ہوتا ہے جو کسی نخلستان کو دیمک کے چاٹ جانے پہ ہوتا ہے ۔

مملکت خدا داد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آئے دن ، نیا سورج کسے نئے عجوبے سے روشناس کرواتا ہے ۔ سندھ اسمبلی کے حالیہ فیصلے نے جہالت کے جس نئے باب کا آغاز کیا ہے، وہ نہ صرف تعلیمی زوال کی نوید ہے بلکہ شعور کے چراغوں کو بجھانے کی ایک دانستہ کوشش بھی ہے ۔ وہ درسگاہیں جہاں کبھی علم کے آبشار بہتے تھے،

اب افسر شاہی کے بے سمت سفینوں کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب معاملات نااہلوں کے سپرد کیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو، اور آج ہم اپنی آنکھوں سے اس حدیث کی عملی تفسیر دیکھ رہے ہیں۔ یہ کیسا ستم ہے کہ وہ مناصب، جو میرٹ اور قابلیت کے روشن مینار ہونے چاہیے تھے، اب ایسے ہاتھوں میں دیے جا رہے ہیں جو صرف دفتری فائلوں پر مہر ثبت کرنا جانتے ہیں۔

پی ایچ ڈی کی شرط کا خاتمہ گویا علم پر آخری ضرب ہے، وہی ضرب جس سے کسی بھی مہذب قوم کی پیشانی سیاہ ہو جایا کرتی ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں تعلیم کو سیاست کی آلودگی نے داغدار کیا، وہاں قوموں نے اپنی شناخت کھو دی۔ ایران میں انقلاب کے بعد یونیورسٹیوں کی چھانٹی نے علمی سطح کو ایسا پست کیا کہ آج بھی وہ علمی دوڑ میں پیچھے ہیں۔ وینزویلا کی جامعات جب اقتدار کی ہوس میں آ جانے والوں کے نرغے میں آئیں، تو علم و تحقیق کی وہ لُٹیا ڈوبی کہ پھر ابھر نہ سکی۔
دوسری طرف، جرمنی، فن لینڈ اور جاپان جیسے ممالک نے اپنے تعلیمی اداروں کو سیاسی تعفن سے محفوظ رکھا اور آج ان کی دانش گاہیں عالمی افق پر روشنی بکھیر رہی ہیں۔یہ فیصلہ تعلیم کے ماتھے پر ایسا بدنما داغ ہے جسے وقت کا کوئی بھی دھارا دھو نہیں سکتا۔ قابلیت کے بجائے جب تعلقات اور اثرو رسوخ کی بنیاد پر عہدے دیے جاتے ہیں تو علم و شعور دم توڑ دیتا ہے، تحقیق دفن ہو جاتی ہے اور دانشوری کے مقدر میں یتیم لکھ دی جاتی ہے۔

وہ وائس چانسلر، جو ایک علمی قافلے کا پیشوا ہوتا ہے، جب خود ہی علم سے ناآشنا ہو تو پھر وہ کیسے کسی یونیورسٹی کی قیادت کرے گا؟ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کسی ناخدا کے ہاتھ میں کشتی تھما دی جائے اور پھر امید رکھی جائے کہ وہ اسے طوفانوں سے نکال کر کنارے تک لے جائے گا۔اندھے کو آئینہ بیچنے بھیج دیا جائے تو نقصان صرف اس کا نہیں ہوتا، بلکہ اس سماج کا بھی ہوتا ہے جو اسے بیچنے کی اجازت دیتا ہے۔

آج ہماری جامعات میں ایسے ہی مناظر بکھرے نظر آتے ہیں، جہاں علم کی قدریں زوال پذیر ہیں اور سیاسی سرپرستی عروج پر ہے۔ شعور کے چراغ گل ہو رہے ہیں، فکر کے آسمان پر گھنگھور گھٹائیں چھا رہی ہیں اور روشنی کے مینار دھندلا رہے ہیں۔ تعلیم کے میدان میں یہ بدنظمی وہ آتش فشاں ہے جو ایک روز ضرور پھٹے گا اور اپنی لپیٹ میں نہ صرف جامعات کو لے گا، بلکہ پورے معاشرے کو تاریکی کے گہرے گڑھوں میں دھکیل دے گا۔

میرٹ کا قتل کوئی معمولی جرم نہیں، بلکہ یہ قوموں کی پیشانی پر وہ سیاہ دھبہ ہوتا ہے جسے مٹانے میں صدیاں بیت جاتی ہیں۔ جب لائق و فائق افراد کو نظر انداز کر کے عہدے ان لوگوں میں بانٹے جاتے ہیں جو محض دفتری اختیارات کے رسیا ہیں، تو پھر برین ڈرین کی وبا پھیلتی ہے۔ آج ہزاروں قابل پاکستانی پروفیسر، ڈاکٹر اور محقق دیارِ غیر میں علم کی خدمت کر رہے ہیں، مگر اپنے ملک میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔

جب جہالت کے سائے طویل ہو جاتے ہیں تو علم کے چراغ مغرب میں جلنے لگتے ہیں۔ کسی بندر کے ہاتھ ماچس دے دی جائے تو وہ جنگل کو آگ لگانے میں دیر نہیں کرتا، اور کسی جاہل کے ہاتھ اقتدار کی باگ ڈور دے دی جائے تو وہ نسلوں کو تباہ کرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتا۔یہ فیصلہ اس ناعاقبت اندیش حکمرانی کی ایک اور کڑی ہے، جو پہلے ہی ملک کے ہر شعبے کو زوال کے دہانے پر پہنچا چکی ہے۔ تعلیمی ادارے کسی سلطنت کے محلات سے زیادہ اہم ہوتے ہیں، کیونکہ محلات کے کھنڈر بننے سے قومیں تباہ نہیں ہوتیں،

مگر جب دانش گاہیں اجڑ جائیں، جب کتابیں بے توقیر ہو جائیں، اور جب شعور کی راہیں مسدود ہو جائیں تو پھر قومیں تاریخ کے ملبے میں دفن ہو جاتی ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ان زنجیروں کو توڑا جائے، اس ظلمت کو مسترد کیا جائے، اور تعلیم کے اس قتلِ عام کے خلاف علم بلند کیا جائے،

ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ہم کسی ایسی کھائی میں جا گریں گے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہوگی۔ جہاں ناخدا ہی کشتی ڈبونے پر تُل جائے، وہاں کنارے کی امید عبث ہے۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے ، ہر اس شخص کا ایمان ناقص ہے جو کسی کی عزت اس کی دولت کی وجہ سے کرنا ہے اس کے علم کی وجہ سے نہیں کرتا ۔ ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں