121

بچپن اصل زندگی تھی مگر کیسے

گاؤں کے لوگوں کا وہاں ہجوم تھا لوگ عموماً کپڑے برتن ندی پر ہی دھوتے تھے ہم چادر سے چھوٹی مچھلیاں پکڑنے گیلی ریت پر پاؤں کے اوپر ڈال کر گھر بناتے گاؤں کے لوگوں کا شام کا شغف اونچے ٹیلے پر بیٹھنا تھا جبکہ ندی کنارے گراؤنڈ پر بچے کرکٹ فٹ بال ہاکی والی بال کھیلتے بڑے ریت پر کبڈی کھیلتے ایک ہی ہوٹل تھا

جس پر عارف چائے بناتا گاڑیوں والے چائے پیتے کچھ شہری بابو جو نوکری کر کے لوٹتے وہ بھی شغل فرماتے لوگوں کی آمدن کم تھی مگر سکون‘ اعتماد‘ عزت تھی جس راستے سے عورت گزرتی مرد نہ گزرتے کسی میں ہمت نہ تھی عورتوں کی طرف نظر اٹھا کر بھی دیکھے لسی دودھ سبزیاں پھل خوراک کی سبھی چیزیں وافر سستی اور ملاوٹ سے پاک تھی۔پھر نئے زمانے کا گند ٹیلیویژن گاؤں میں آیا‘کچھ لوگوں میں ہمت آئی وہ اتوار کو انڈین فلمیں دیکھتے لیکن جمعرات کی رات کو پاکستان کی فلم پھر کرایہ پر ویڈیوز کی دکانیں پھر پوسٹ کارڈ پر انڈین ایکسٹرس کی تصاویر پر گھروں کی دیواریں اونچی ہونے لگیں گھروں کو پکے دروازے پھر صحن ختم ہونے لگے پھر مہمانداری موت‘ فوت‘ شادی وبیاہ تک ہونے لگی‘ حقہ سے سگریٹ پھر گاؤں میں چرس پوڈر افیون کے رسیا پیدا ہونے لگے

‘ بچے سکولوں سے بھاگنے لگے زرعی زمینوں پر دکانیں بننا شروع ہو گئی زمینیں بنجر ہونا شروع ہوگئی واٹر سپلائی کا چند روپے کا سرکاری بل نہ دینے والوں نے گھر گھر ہینڈ پمپ موٹریں لگوا لیں کنویں سوکھ گئے گھر گھر لیٹرین گھر بن گئے وہ ندی جس سے مٹھی میں بھر کر پانی پیتے تھے گٹر لائنیں ڈال دی گئیں ء مچھلیوں کے مسکن تباہ کر دیے گئے ترقی کے شوقین شہروں کو چلے تو گاؤں کا نام تک نہ لیا کسی نے اجداد کے گھر کوڑیوں کے مول بیچے تو کسی نے چند روپے پر ہتھیا لیے قبریں اپنے پیاروں کی راہیں دیکھتی ہیں چاہنے والے چلنے سے معذور‘ توانائیاں ختم ہونے کو ہم نے ترقی کے نام پر تباہی خریدی بلکہ گلے لگائی اور ہم کو فرصت نہیں کہ ماضی پر غم گساری کریں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں