بابر اورنگزیب،پنڈی پوسٹ/بلدیاتی الیکشن کا طبل بجنے والا ہے مگر اس کے لیے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تیار نظر نیں آرہی کیونکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ پنجاب میں جلد سے جلد الیکشن کروائے جائےں جس پر عمران خان تو تیار ہوگئے مگر وزراءنے انکو مشورہ دیا کہ جب تک عوام کو ریلیف نہیں دیا جا سکتا تب تک الیکشن نہ کروائیں کیونکہ اگر یہی کارکردگی لے کر عوام کے پاس گئے تو بلدیات میں ہمیں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑے گا اب دیکھنا ہوگا کہ اس پر حکومت کیا کرتی ہے الیکشن جلد کرواتی ہے یا ابھی نہیں کروائے جائیں گے لیکن الیکشن اسی سال امید ہے کہ ہوجائےں گے حلقہ این اے 59 میں بلدیاتی الیکشن کا جائزہ لیں اور سیاسی جماعتوں کی تیاریاں دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف تمام یونین کونسل میں صف اول میں نظر آرہی ہے جو ترقیاتی کاموں کے ساتھ ساتھ بلدیاتی الیکشن کی تیاری میں بھی مصروف عمل ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار باقی امیدواروں سے مقابلہ کرنے سے پہلے اپنی ہی جماعت کے امیدواروں سے مقابلہ کرتے نظر آرہے ہیں کیونکہ پارٹی کس کو سپورٹ کرے گی کون الیکشن لڑے گا یہ فیصلہ ہونا باقی ہے مگر ہر یونین کونسل میں تحریک انصاف کے 4 سے 5 ایسے امیدوار ہیں جو الیکشن لڑنے کے خواہاں ہیں اور اپنے ہی پارٹی کے کارکنوں کو زیر کرنے کے در پے ہیں اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف عمل ہے تاکہ غلام سرور خان اور ایم پی اے صاحبان کی نظر میں انکی کارگردگی دوسروں کی نسبت زیادہ نظر آئے اور پارٹی کی طرف سے ٹکٹ اور سپورٹ بھی کی ہو جائے ایسے میں کیا کسی ایک کو ٹکٹ ملنے کے بعد باقی سارے الیکشن کے خواہشمند امیدوار خاموشی سے اس کا ساتھ دیں گے یا کہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ کر اپنی ہی جماعت کے امیدوار کا مقابلہ کرے گے یہ سارے ایسے سوال ہیں جن کا جواب قبل ازوقت ہے دوسری طرف انکی حریف جماعت پاکستان مسلم لیگ ن ہے جو کہ ماضی میں این اے 59 کی تمام سیٹوں پر جیتی ہے ماسوائے کسی ایک آدھ یونین کونسل کے باقی تمام یونین کونسلز میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہولڈر یا حمایت یافتہ امیدوار جیتے ہیں مگر اس بار بلدیاتی الیکشن میں مسلم لیگ ن کا زیادہ تر یو سیز میں کوئی خاص امیدوار نظر نہیں آرہا کیونکہ ماضی میں جتنے بھی بلدیاتی نمائندے رہے ہیں جو الیکشن لڑتے رہے ہیں انکی زیادہ تعداد تاحال چوہدری نثار علی خان کے ساتھ کھڑی ہے جن میں چیئرمین،وائس چیئرمین سمیت کونسلر بھی شامل ہیں گو کہ حلقہ این اے 59 میں انجینئر قمر السلام راجہ کافی متحرک دکھائی دے رہے ہیں بلدیاتی الیکشن کے لیے لوگوں سے رابطہ کر رہے ہیں مگر اس حوالے سے مسلم لیگ ن کی بہت بڑی ناکامی ہے کہ جتنے بھی ماضی کے بلدیاتی نمائندے تھے جو شیر کے نشان پر الیکشن لڑے ہیں یا مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ تھے اور مسلم لیگ ن سے وابسطہ رہے ہیں ان سب کو واپس اپنی پارٹی میں نہیں لا سکے اس کے لیے انجینئر قمر السلام راجہ نے کوشش کی بارہا دفعہ سب سے کہہ بھی چکے مگر کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا نہ ہی مسلم لیگ ن نے اس کو سنجیدہ لیا کہ ان کی پارٹی کے منتخب بلدیاتی نمائندے اپنی جماعت کو چھوڑ کر جنرل الیکشن میں ایک آزاد امیدوار کے ساتھ کھڑے رہے اور اس کے بعد بھی زیادہ تعداد میں تاحال چوہدری نثار علی خان کے ساتھ کھڑے ہیں ماسوائے چند نمائندوں کے جو مسلم لیگ ن کی چھتری کے نیچے واپس آگئے ہیں یعنی بلدیاتی الیکشن میں ادھر بھی صورتحال تحریک انصاف سے مختلف نہیں یہاں پر بھی مسلم لیگ ن (نواز شریف) بمقابلہ مسلم لیگ ن (نثار) کے امیدواروں کا آپس میں ہوتا دکھائی دے رہا ہے اگر بلدیاتی الیکشن میں مسلم لیگ ن اور چوہدری نثار علی خان کے عمائدین ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے نہ ہوئے تو مسلم لیگ ن کا ووٹ تقسیم ہو جائے گا اور اس کا فائدہ قومی اسمبلی الیکشن کی طرح کوئی تیسر اٹھا لیں گا یعنی اس کا فائدہ پاکستان تحریک انصاف کو ہوگا اور وہ الیکشن جیت جائے گی اس لیے جہاں پر پاکستان تحریک انصاف اندرونی طور پر سازشوں اور مخالفتوں کا شکار نظر آرہی ہے تو وہیں پر مسلم لیگ ن اور چوہدری نثار گروپ بھی اسی صورتحال کا شکار ہے یاد رہے پچھلے بلدیاتی الیکشن میں بھی راولپنڈی کی زیادہ یونین کونسل میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کا مقابلہ اپنی ہی جماعت کے امیدوار سے تھا یعنی پارٹی نے امیدوار زیادہ ہونے کے سبب کسی کو بھی ٹکٹ نہیں دیا تھا اس لیے ایک ایک یونین کونسل میں دو دو امیدوار اپنی ہی جماعت کے امیدوار کے آمنے سامنے تھے الیکشن تو کسی ایک گروپ نے جیت لیا تھا اور وہ مسلم لیگ ن کے ساتھ منسلک بھی ہوگیا تھا مگر ان امیدواروں کی آپس میں مخالفتیں تاحال قائم ہیں انکو ختم کرنے کے لیے بھی مسلم لیگ ن نے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا ایسے میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کیا مسلم لیگ ن اور چوہدری گروپ میں الحاق ہوگا یا قومی اسمبلی الیکشن کی طرح بلدیاتی الیکشن بھی چوہدری نثار گروپ الگ الیکشن لڑے گا اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا ان دو بڑی جماعتوں کے علاوہ باقی سیاسی جماعتیں بھی اپنا اپنا امیدوار میدان میں اتارنے کو تیار ہیں خاص طور پر تحریک لبیک پاکستان جو نئی سیاسی جماعت ہے جس نے قومی اسمبلی الیکشن میں بھی حیرت انگیز طور پر بہت ووٹ حاصل کیے تھے وہ کسی بھی امیدوار کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے ایسے میں جیت کا سہرا کس کے سر سجھے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔
92