جب سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت پاکستان میں آئی تو اُس نے خطے کے امن کی کوششیں شروع کیں اور ہندوستان کی طرف خیر سگالی کا ہاتھ بڑھایا۔ اس میں ابھی کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا تھا کہ دونوں ملکوں کی
وہ قوتیں جو دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہونے سے ان کے مفادات کو زد پہنچتی ہے وہ متحرک ہو ئیں او ر کنٹرول لائن پر پہلے معمولی جھڑپیں ہوئیں اور وہ رفتہ رفتہ بڑھتی جا رہی ہیں جس میں پاکستان اور جموں کے بے گناہ شہری جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ زخمی بھی ہو رہے ہیں ۔ انہیں اپنا گھر بار بھی چھوڑنا پڑ رہا ہے اور ان کے مسائل حل کرنے کیلئے سرمائے کی ضرورت ہو گی ان کے لئے کیمپ بنانے پڑیں گے پاکستان اس سے پہلے ہی مشکل کا شکار تھا جو وزیرستان سے آئے ہوئے لوگوں کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ میری نظر میں پچھلے ادوار میں ہم سے کچھ غلطیاں ہو گئیں۔ ہمیں ابھی مسئلہ کشمیر نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔ بالخصوص اس وقت تک جب ہمارا وزیرستان کا مسئلہ حل نہ ہو جاتا اس کے ساتھ ساتھ جو ہماری معاشی صورت حال ہے اس میں کچھ کامیابیاں حاصل کر چکنے کے بعد اپنے داخلی مسائل مکمل طور پر حل کر کے کشمیر کا مسئلہ دنیا کے سامنے رکھتے تو ہمیں پذیرائی ملنے کی توقع تھی۔ جہاں تک کشمیر کے مسئلہ کا تعلق ہے میری نظر میں ابتدائی طور پر ہم سے ایک بڑی غلطی ہوئی کہ جب ہندوستان اقوام متحدہ میں گیا تو وہاں جو قرار داد 13اگست 1948میں منظور ہوئی اس کی پہلی شق یہ ہے کہ پاکستانی لڑاکے کشمیر سے مکمل طور پر نکل جائیں۔ ہندوستان انتہائی محدود فوج کشمیر میں رکھے باقی فوج وہ بھی کشمیر سے نکال لے اس قرار داد پر عمل کرنا سب سے پہلے پاکستان کی ذمہ داری تھی۔ اس پر عمل نہ کرنے کا جو ہمیں نقصان ہوا کہ کشمیر ی مسلمان دو حصوں میں تقسیم ہو گئے۔ پاکستان سیز فائل لائن سے پیچھے ہٹ جاتا تو وہ سیز فائل لائن فائر لائن نہ رہتی اور کشمیری آپس میں مل جل کر استصواب رائے کرانے کے لئے ہندوستان پر دباؤ بڑھاتے۔ کیونکہ جو علاقے آزاد کشمیر میں ہیں وہ پاکستان کے زبردست حامی تھے اور وہ پورے کشمیر میں زبر دست تحریک چلاتے اور پاکستان کی حامی قیادت کشمیریوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی۔ اس وقت پاکستان کشمیریوں کے لئے ارض جنت تھا لیکن کشمیر اسمبلی کے ممبران تقسیم تھے پاکستان کے حامی آزاد کشمیر میں رہ گئے اور سیکو لر کشمیری ممبران مقبوضہ کشمیر میں رہ گئے اور مقبوضہ کشمیر کی عوام کو وہ قیادت میسر نہ ہو سکی جو کشمیر میں پاکستان سے الحاق کی آواز بلند کرتی۔ میرواعظ بھی پاکستان میں ہجرت کر کے آ گئے۔ میری نظر میں آج بھی اگر اقوام متحدہ کی قرار داد پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کی فوج کشمیر سے نکل کر آ جائے اور اقوام متحدہ پر دباؤ بڑھائے کہ کشمیر کو ایک خود مختار ملک کا درجہ دے کر دنیا کے نقشہ پر لایا جائے ۔اس وجہ سے ہندوستان اور پاکستان کو کوئی شکست نہ ہو گی۔ اور کشمیر پاکستان کا ایک برادر ملک ہو گا۔ کشمیر چونکہ لینڈ لاک ملک بنے گا اور دنیا سے رابطہ کرنے کے لئے پاکستان بھی اس کے لئے موزوں ملک ہوگا اس وجہ سے بر صغیر میں امن قائم ہو جائے گا اور قائد
اعظم ؒ کا ایک خواب بھی پورا ہو نے کا موقع میسر آ جائے گاکہ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات امریکہ اور کینڈا والے ہو جائیں گے۔ کشمیر کے علاوہ ہندوستان کے ساتھ کوئی خاص جھگڑا نہیں ہے جو میز پر حل نہ ہو سکے۔ ابھی جو جھڑپیں شروع ہیں مجھے یہ ڈر لگ رہا ہے کہ شاید اب فائر بندی کرنے کے لئے کوئی بھی ملک مداخلت نہ کرے۔ ماضی میں امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کی طرفداری کی اور ہندوستان پر دباؤ بڑھایا کہ وہ پاکستان کی آزادی کا احترام کرے لیکن اب لگ رہا ہے کہ وہ پاکستان پر دباؤ بڑھائے گا کہ ہندوستان کے ساتھ بیٹھ کر خود ہی اپنے مسائل حل کرے جہاں تک دونوں ملکوں کا ایٹمی طاقت ہونا ہے دونوں ملکوں کی پالیسی سازوں کو یقین ہے کہ ایٹمی اسلحہ کوئی بھی ملک استعمال نہیں کرے گا کیونکہ دونوں ایک دوسرے پر ایٹمی حملہ کر سکتے ہیں۔ دنیا میں صرف جاپان پر ہی ایٹمی حملہ کیا گیا ۔ اگر جاپان کے پاس ایٹمی اسلحہ ہوتا تو اس پر کبھی بھی ایٹمی حملہ نہ ہوتا ۔ لہٰذا دونوں ملک اپنی اپنی عوام کی حالت پر رحم کرتے ہوئے اسلحے کے زور پر اپنی بات منوانے کی بجائے میز پر بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل حل کریں۔{jcomments on}