102

باوقار قوم کے بدتہذیب لوگ

تحریر:زاہد فاروق/انڈین چینلز کو دیکھیں تو وہ مشاہد اللہ کا کلپ بار بار دکھا کر پاکستان کو بدتہذیب ثابت کرنا چاہتا ہے لیکن ہمارے تہذیب یافتہ مشاہد اللہ کو یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ جوائنٹ سیشن انڈیا اور دنیا کو پیغام دینے اور اپنی یکجہتی دیکھانے کے لیے منعقد کیا گیا تھا انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بدتہذیبوں کہ اس مجمع کا الزام پوری قوم کو سہنا پڑتا ہے ۔اور بدقسمتی سے ہمارا مزاج بھی بحثیت قوم ہوگیا ہے کہ کوئی جتنا زیادہ بدتمیز اور بدتہذیب ہوتا ہے اسے اتنا ہی اچھا مقرر سمجھا جاتا ہے چاہے اس کا اطلاق حکومت میں بیٹھے اور اپوزیشن والے دونوں پر ہوتا ہے اہلِ دانش تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو موقع محل کی مناسبت اور حالات کی سنگینی کو سامنے رکھتے ہیں۔ایک طرف ہندوستان نے کشمیر پر اتنا بڑا فیصلہ کر لیا اس کشمیر کا جس کو ہم اپنی شہہ رگ کہتے ہیں یہ فیصلہ ایسے ہی ہے جیسے ہمارا شہ رگ پر چھری رکھ دی ہو اور دوسری طرف ہماری سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ ہم اچھا پیغام دینے کی بجائے دنیا کے سامنے اپنا مذاق اڑا رہے اور پھر پوری قوم کا تشخص تباہ کیا جارہا ہے کہ یہ ہیں وہ لوگ جو عوامِ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں جن کو ڈبو کہا جاتا ہے اور دوسری طرف سے زبان گتھی سے کھینچنے کی باتیں ہوتی ہیں شرم کا مقام ہے ہمارے لیے سیاست ایک گندہ کھیل بن چکا اور اس کے کھلاڑی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادرای نبھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے چاہے اس کی قیمت قومی وقار کو قربان کرکے ادا کیوں نہ کرنا پڑے۔ہر پاکستانی ہندوستان کی طرف سے لیے گئے اقدامات پر افسوس کا اظہار کر رہا ہے اور یہ لوگ ان کے زخموں پر مرحم کی بجائے نمک پاشی کرتے نظر آتے ہیں لوگ محوِ حیرت ہیں کہ
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
اور مجھ سمیت شاید کچھ دوست ان بدتہذیبیوں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں جونہی فیس بک کھولیں ہر چار پوسٹوں کے بعد مشاہد اللہ اور فواد چوہدری کی بدتہذیبی کی ویڈیو پوسٹ ہوئی نظر آتی ہے ہم لوگ اس قدر بے حس ہوچکے کہ اس بدتہذیبی کی مذمت کرنے کی بجائے سرِ عام اس کا ڈھونڈورا فخریہ انداز میں پیٹ رہے ہیں اور اس کے حق میں اور خلاف مباحثے چل رہے ہیں جس قوم میں اس قدر بے حسی اور تقسیم پیدا ہوجائے وہ دشمن کو وقار کے ساتھ پیغام نہیں دے پاتیں یہ وہ مہینہ ہے جس میں پاکستان بنا اور اس کے بنانے کے دوران کتنے ہی لوگ ہوں گے جنھوں نے اپنی جانیں قربان کردیں کتنے ہی لوگ ہوں گے جو اپنے اہل وعیال سے جدا ہوے کتنی ماوں بہنوں بیٹیوں نے اپنی عزت بچانے کے لیے کنووں میں چھلانگیں لگا کر جان دے دی کیا یہ ملک ایسے لوگ کے لیے حاصل کیا گیا تھا جن کو قومی غیرت اور وقار کا نہ احساس ہے نہ پاس افسوس صد افسوس
مجھے یہ کہنا پڑے گا
میں جشن مناوں تو کس لیے
مجھے وحش ہے نہ جنون ہے
یہ تو رہبروں کا مشغلہ
یہاں چیخ جن کا سکون ہے
ہوے قتل کتنے ہی بے وجہ
اٹھی ایک خون کی لہر ہے
یہاں واعظوں کی زبان میں
کسی شیش ناگ کا زہر ہے
کرو اکتفاء مرے قتل پر
مری نسل کو تو امان دو
سبھی سائبان جلے تو کیا
مرے سر پہ دھوپ ہی تان دو
اس ملکِ خداد کی کسی اور سے ڈر نہیں اگر ڈر ہے تو ایسے لوگوں سے ہے جن کے آگے قومی وقار و حمیت بے معنی و بے وقعت ہے جن کا مقصد شاہ کے قصیدے کہنا ہے۔بلاشبہ یہ کہنا پڑے گا

میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے فکر آتشِ گل سے ہے کہیں یہ چمن کو جلا نہ دے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں