تحریر: ،محمد حسیب چوہدری
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیے ہیں مطلب شادی شدہ زندگی کی گاڑی کے دو پہیے۔ ہر کسی کو ایک پہیے کی تلاش رہتی ہے تاکہ گاڑی مکمل اور پھر اس کو ڈرائیو کیا جائے۔اس طرح زندگی گزارنے کے لیے شادی ایک ضروری عمل ہے جس سے ہر کسی نے کم ازکم ایک بار ضرور گزرنا ہوتا ہے۔نکاح کو آدھا ایمان کہا گیا ہے جس نے نکاح کیا اس کا آدھا ایمان مکمل ہوگیا۔اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔اسلام ہمیں شادی کے تمام معاملات پر واضح رہنمائی کرتا ہے۔پھر ہمارے معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔نکاح کو عام اور آسان کرنے کا حکم ہے تاکہ زنا جیسے کبیرہ گناہ سے بچا جا سکے لیکن یہاں تو نکاح شادی تو سخت شرائط کے ساتھ کی جاتی ہے معاشرتی رسم ورواج کو مد نظر رکھ اس کو ترتیب دیا جاتاہے۔ان تمام پروگراموں میں سخت پروگرام بارات کے نام پر کیا جاتا ہے جو لڑکے والوں کے لیے قدرے آسان ہوتا ہے لیکن لڑکی والوں کیلئے یہ ”بارات کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی“ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ آج کل لڑکے والے کوئی نہ کوئی بہانا بنا کر ولیمہ سے جان چھڑا لیتے ہیں۔جبکہ شادی کی اصل دعوت ولیمہ ہے بے شک چھوٹے سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔
لیکن یہاں تو سارا ملبہ لڑکی والوں کے اوپر آ جاتاہے کیونکہ دولہے میاں تو لڑکی لینے تو ضرور جائیں گے وہ اکیلے نہیں جائیں گے بلکہ بارات کے نام پر ایک فوج ظفر موج لیکر جائیں گے۔پھر لڑکے والوں کی طرف سے فرمائشیں شروع ہوجاتی ہیں کہ ہم عزت دار اور برادری والے ہیں بارات آنے پر ہماری بہترین دعوت کی جائے ورنہ برادری میں ہماری ناک کٹ جائے گی۔ان تمام حالات میں لڑکی کے والدین ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں ان کا بس اتنا ہی قصور ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی پال پوس کر ان کے حوالے کر رہے ہوتے ہیں۔یہ بے چارے بے بس ہوتے لڑکے والوں کی ہر بات مان رہے ہوتے ہے اسلام میں لڑکی والوں پر ایک روپے کا بوجھ نہیں جو یہ لاکھوں کا بوجھ ادھار حاصل کرکے اٹھا رہے ہوتے ہیں۔بارات بڑی بڑی گاڑیوں کے ساتھ روانہ ہوتی ہے۔پھر مذاق یہ ہوتا ہے کہ لڑکے والے چھوہارے اور ڈرائی فروٹ وغیرہ لے کر جاتے ہیں جو وہاں پر تقسیم کیے جاتے ہیں۔عجیب منتق ہے چھوہارے لڑکے والوں کی طرف سے پھر مرغ پلاؤ اور مکمل دعوت لڑکی والوں کی طرف سے ہوتی ہے جو لوگ مرغ پلاؤ وغیرہ کھلا سکتے ہیں کیا وہ چھوہارے بھی نہیں کھلا سکتے؟پھر آپ کو دیکھنے میں یہ بھی ملتا ہے کہ لڑکے والوں کی طرف سے نکاح سے پہلے مولوی صاحب کے معاوضہ کے بارے میں سر گوشیاں شروع ہوجاتی ہیں اس کام کی بڑی فکر ہوتی ہے کہ پتا نہیں مولوی صاحب کتنے پیسے لیں گے پوری کوشش ہوتی ہے مولوی صاحب کو کم سے کم معاوضے پر ٹرخایا جائے۔
اس کے بعد حق مہر کی باری آتی ہے جو نکاح سے پہلے دونوں خاندانوں کے درمیان طے پانا ضروری ہے۔لیکن زیادہ تر نکاح کے موقع پر ہی طے کیا جاتاہے اگر لڑکی والوں کی طرف سے کوئی بھی حق مہر لکھوانے کا مطالبہ ہو تو یہ کہ کر خاموش کر دیا جاتا ہے کہ شرعی حق مہر لکھا جائے جو ان کے ذہن کے مطابق دو سے پانچ ہزار ہوتا ہے اس سے زیادہ کو اپنی بے عزتی تصور کرتے ہیں یہ لوگ جبکہ حقیقت میں شریعت میں حق مہر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔اپنی استطاعت کے مطابق مقرر کیا جائے مہنگی گاڑیوں کے رینٹ اور مہنگے سوٹوں پر تو خرچہ کر دیا جاتا ہے لیکن لڑکی کو شرعی اور جائز حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ایسی بارات کسی غریب کے لیے عذاب سے کم نہیں ہوتی جس میں ہر معاملہ پر لڑکی کے والدین کو دباؤ میں ڈالا جاتا ہے اسکی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے بارات لے جانے کے بجائے چند خواتین جاکر لڑکی لے کر آ سکتی ہیں۔جس طرح حضرت علیؓ کی شادی پر چند خواتین نے جاکر حضرت فاطمتہ الزہرہؓ کو لا کر حضرت علیؓ کے حجرہ مبارک تک چھوڑا تھا۔ان کی زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے اس بارات عذاب کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔اگر کسی کو اتنا شوق ہے فوج ظفر موج کی دعوت کا تو وہ خود انتظام کرئے اور لڑکی والوں کے گھر کے تمام اخراجات کی بھی ذمہ داری لیں اور خود مہنگائی کا بہانا بنا کر ولیمہ سے راہ فرار اختیار نہ کریں۔