مشرق وسطیٰ اور عرب وعجم کے مسلم خطہ ارضی پر گزشتہ کئ دہای60یوں سے جاری جنگ وجدل کم وبیش تیس لاکھ مسلم نفوس کو جام شہادت پلا چکی ہے۔ مسلم حکمران و سلاطین اپنی حکومتوں کے بچاو60 کی خاطر دشمنان اسلام کا آلہ کا ربن کر اپنے ہی ہاتھوں مسلم تہذیب کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ چمنستان اسلام کے پر بہار دور پر وقتاً فوقتاً خزاں رسیدہ طوفان حملہ آور ہوتے رہے مگر ہر دور میں روح اسلام کو قائم رکھنے والے افراد سامنے آتے رہے اور پرچم اسلام کو سربلند کرتے رہے۔ کہیں یوسف بن تاشفین نے سر زمین اندلس پر اسلام کا علم بلند کیا، کہیں نورالدین زنگی سر زمین ہند پر اور کہیں سلطان صلاح الدین نے خطہ عرب پر۔صلیبی جنگوں کے باقیات اور یہود کی سازشوں کے اثرات آج بھی مسلم دنیا کا نقشہ تبدیل کرنے کے خواستگار ہیں۔2002میں امریکن وار کالج کے کرنل پیٹر نے ایک نقشہ جاری کیا جس میں مسلم دنیا کا نقشہ مکمل طور پر تبدیل کرنے اور دیگر مسلم ممالک کے ساتھ سعودی عرب کو توڑ کر گریٹر اسرای60یل بنانے کا عندیہ دیا گیا۔ اسی نقشے کی تکمیل کے عملی اقدامات صیہونی سازشوں اور مسلم فروق کے درمیان جنگ وجدل بپا کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے سے وابسطہ ہیں۔عرب دنیا میں جاری اس جنگ وجدل میں اسرای60یل کے خفیہ مقاصد پوشیدہ ہیں۔لیبیا ،مصر اور عراق کی تباہی کے بعد شام میں بشارالاسد کی ایران نواز حکومت کا تختہ الٹنے کیلیے سعودی حکومت نے باغی قوتوں کو مضبوط کیا اور شیعہ سنی فسادات کی آڑ میں دشمن کے مقاصد کی تکمیل کی، اسی جنگ و جدل کے نتیجہ میں آج یمن کے پر امن خطہ پر ایک حوثی باغی گروپ حکومت سے بر سر پیکار ہے جسے ایرانی قیادت کے حمایت حاصل ہے۔یہ وہی سر زمین ہے جس کے متعلق سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’کہ ایمان وہاں ہے‘‘اور فرمایا ’’یمن والے بہت شریف اور نرم دل ہیں‘‘پھر فرمایا’’فقہ اور عقل یمن سے ہے‘‘۔سعودی عرب اس باغی گروہ سے خطرہ محسوس کرتے ہوے60 تمام حلیف ممالک سے مدد مانگ رہا ہے حالانکہ شام کی حکومت کا تختہ الٹنے کا نتیجہ اس جنگ کے خطرات سے وہ اچھی طرح آگاہ ہے۔یہ جنگ ہر گز دو ممالک کی نہیں بلکہ اسلامی تہذیب کے خاتمے کیلیے امریکاو اسرای60یل کی امت مسلمہ سے جنگ ہے مگر افسوس کے مسلم حکمران دشمن کے ناپاک عزای60م کی تکمیل کے لیے باہم دست و گریباں ہیں۔اس کھیل میں امریکی ایرانیوں کی حمایت جبکہ اسرای60یل سعودی حکومت کی حمایت کا عندیہ دے رہا ہے ،حقیتاً دونوں کا مقصد اسلام کا خاتمہ ہے۔ اسرای60یل نے پہلے ہی ایک جنگجو گروپ داعش کے نام سے مشرق وسطیٰ میں متحرک کر دیا جس کا مقصد گریٹر اسرای60یل کی ریاست کا قیام عمل میں لانا اور خیبر کے جن علاقوں سے نبی آخرالزماں ﷺ نے یہودی قبیلوں کو جلا وطن کیا تھا وہاں دوبارہ اپنی حکومت قای60م کرنا ہے۔داعش نے سعودی تعاون سے تباہ ہونے والے ملک شام میں اپنے مضبوط اڈے قای60م کرلیے ہیں اور اب جبکہ سعودی حکومت یمن پر حملہ آور ہو رہی ہے دوسری جانب سعودی سرحدوں پر داعش اور القای60دہ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ان دونوں گروپوں کی تشکیل میں کو ل60ی مسلم حکومت شامل نہیں بلکہ ان تشکیل امریکہ اور اسرای60یل کی طرف سے کی گئ ۔ ان حالات میں واحد ایٹمی قوت کے حامل ملک پاکستان کی ذمہ داری اس تمام جنگ وجدل کی فضا کو ختم کرنے کیلیے سب سے بڑھ کر ہے۔ ماضی میں ایسی شاندار مثالیں ہم پہلے بھی قای60م کر چکے ہیں۔1979میں ایران کے انقلاب کے بعددس سال جاری رہنے والی عراق ایران جنگ میں بیس لاکھ سے زای60د مسلمان شہید ہوے60 اور عرب وعجم میں شیعہ سنی فسادات کے نام پر ایسی آگ لگی جو آج بھی دشمن کے لیے ہتھیا ر کا کام دے رہی ہے۔عرب ایران تعلقات کی بحالی کے لیے پاکستان کے سربراہ نے کاسا بلانکا میں OIC کے سمٹ میں ثالثی کا کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں جنگ بندی ممکن ہول60ی۔پاکستان کے ایران اور سعودیہ دونوں ممالک سے برادرانہ تعلقات ہیں اور ماضی میں جب بھی پاکستان پر کڑا وقت آیا ان دونوں ریاستوں نے پاکستان کی مدد کی ، جس کی سب سے بڑی مثال 1965کی پاک بھارت جنگ میں شاہ آف ایران کا تعاون اور سعودیہ سے دفاعی معاہدات ہیں۔آج بھی امت مسلمہ کو تباہی سے بچانے اور مسلم ممالک کے درمیان صلح کروانے کیلیے پاکستان قلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔اسلام کی حفاظت کیلے اللہ اپنی تدبیر ضرور قای60م کرتا ہے اور اہل اسلام پر واجب ہے کہ خد اوند کریم کے اس حکم کی تعمیل کریں کہ جب دو گروہ باہم تصادم کا شکار ہوں تو ان میں صلح کروادی جاے60 اور پھر زیادتی کرنے والے سے لڑا جاے60۔ آج صلح کو ایک موقع ضرور دینا چاہیے اور دشمن کی توقعات کے برعکس صلح کی کوشش کیے بغیر یمن کے خلاف ہتھیا ر اٹھانا خدائی حکم کی خلاف ورزی ہوگی۔مسلم دنیا کے حکمرانوں پر بھی کڑی آزمای60ش کا وقت ہے، یہاں ذاتی مفادات کو نظر انداز کرکے امت کا مفاد سامنے رکھا جاے60۔اگر ایسانہ کیا گیا تو خدانخواستہ جس آگ کے شعلے مشرق وسطیٰ میں بھڑک رہے ہیں پاکستان بھی اس کی چنگاریوں سے محفوظ نہیں رہے گا۔ بعض سیاسی حلقے اس صورتحال میں خاموشی اختیا ر کرنے اور نیوٹرل رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں مگر یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ پاکستان کا وجود حرمین شریفین کی سلامتی اور بقاسے مشروط ہے اور اللہ نے اس وطن کو جو قوت عطا کی ہے وہ مکہ و مدینہ کی حفاظت کی ضامن ہے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلیے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر
راقم الحروف : صاحبزادہ قاضی محمد عمران
دربار عالیہ منورآباد شریف (ڈھڈیاں{jcomments on})
104