گھریلو خواتین ہوٹلوں کے خانسا مے اور دیگر لوگ اپنا اپناکھاناپکانے کے لیے ایند ھن کا بندوبست کرتے ہیں انھیں ایندھن میسر نہ ہوتو اپنا کام انجام نہیں دے سکتے یہی سبب ہے کے ہمارے ملک میں عموماً سردی کے موسم میں جب شہروں میں گیس کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے تو عوام ہاتھوں میں چولہے اور توے لیے سراپا احتجاج ہوتے ہیں تیل گیس کوئلہ اور لکڑی وغیرہ تمام بطور ایندھن استعمال ہوتی ہیں ان کیبغیر ہمارے ملک میں اپنی اپنی ہنڈ یا پکانے کا کام تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔پیٹر ولیم مصنوعات فوری آگ پکڑتی ہیں جبکہ بڑی لکڑیاں جلانے کے لیے کافی جتن کرنے پڑتے ہیں۔
وہ فوری آگ نہیں پکڑتیں۔انہیں اپنی منشا کے مطابق استعمال کرنے کے لیے کچھ چھوٹی لکڑیاں درکار ہوتی ہیں۔گھاس پھونس تنکوں اور شاپروں سے بھی کام لینے میں عارنہیں سمجھا جاتا کیونکہ آگ جلانا اور اس پر اپنی ہنڈ ہا پکانا جو مقصود ہوتا ہے اپنے مقصد کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے بظاہر بے ترتیب او گندگی دکھائی دینے والے تنکے کاغذ اور شاپر اچانک ہماری نظر میں انتہائی اہمیت اختیار کر لیتے ہیں جس سے ہم گندگی تصور کر کے دور بھاگتے ہیں اسی گندگی کو اپنے ہاتھوں سے اٹھانے میں کسی قباحت کا اظہار نہیں ہوتا
کیونکہ ہمیں اس وقت ان کی ضرورت جو ہوتی ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ چھوٹی لکڑیاں شاپر تنکے آسانی سے جلیں گے جن کی بدولت بڑی لکڑیاں آگ پکڑیں گی اور یوں ہمارامقصد تکمیل کو پہنچے گا گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ بظاہربیکا ر نظر آنے والی اشیا انتہائی اہمیت کی حامل ہیں مگر ان تنکوں کا غذوں اور شاپروں کو ان کی اہمیت سے آگاہ نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا شمار بے جان اشیا میں ہوتا اور بے جان اشیا کا کام محض حرار ت پہنچانا ہوتا ہے اور ہمارے مقاصد کو یا یہ تکمیل تک پہنچانا ہوتا ہے
قدرت نے اس جہان میں کوئی چیز بے کار تحلیق نہیں کی اس کی ہر ایک تحلیق میں کوئی نہ کوئی بھید ضرور پوشیدہ ہوتا ہے ہماری زندگی کی گہما گہمی کا انحصار ہمارے اطراف انہیں بکھری ہوئی بے ترتیب اشیا کو ترتیب دے کر انھیں قدرت کے متعین کردہ ان کی اصل جگہ پر رکھنے پر ہے اگر ہم اپنی سیاست معاشرت اور معیشت کا جائزہ لیں تو وہ بھی ایک غیر متعین کی سمت کی طرٖ ف گامزن ہے اور بے ترتیبی کا شکار ہے یہی سبب ہے کہ ہماری عوام بیک وقت بے بسی اور بے حسی کی آگ میں جل رہی ہے اشرافیہ کی نظر میں عوام کی حیثیت گھاسپھونس تنکوں کاغذوں اور شاپروں سے زیادہ ہر گز نہیں ہے
ہمارے سیاستدانوں کو ان کی ضرورت ہر الیکشن سے ایک ماہ پہلے شدید ترہوتی ہے جو کہ پولنگ ڈے تک رہتی ہے۔ہمارے سیاستدان لفاظی اور بہروپ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے وہ عوام کے سامنے اپنے بیانیے کی ہینڈ یا رکھتے ہیں میڈیا کے زریعے عوام کو تنکوں اور شاپروں کی مانند اگھٹا کرتے ہیں اور ایسا ہیجان انگیز ماحول بناتے ہیں کہ عوام تنکوں کی طرح جلنے لگتی ہے شاپروں کے جلنے بری لکڑیاں تنکوں کی طرح جلنے لگتی ہیں اس دوران میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا اپنا حصہ ڈالتا ہے وہ جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کرتا ہے تاکہ مقصد کے حصول تک آگ بجھنے نہ پائے۔
آگ اس قدر شدید ہوتی ہے کہ بڑی بڑی لکڑیاں بھی جل کر راکھ ہو جاتی ہیں مگر ارباب اختیار و اقتدار کی ہنڈیا تیار ہو چکی ہوتی ہے جسے دراصل عوام کی حرارت سے ان کا بیانیہ پک چکا ہوتاہے جسے وہ مع اہل و عیال مزہ لے کر کھاتے ہیں کے انھیں جلی ہوئی راکھ سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی اور ہونی بھی نہیں چاہیے عوامی تنکوں اور شاہروں کو ایندھن بننے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا کیونکہ قدرت نے انھیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دے رکھی مگر افسوس کہ کسی ماہر ساحر کے ہاتھ کے لمس میں اتنا اثر تھا ہوش و حو اس سحر زدہ ہوگئے اور جلنے تک کا احساس نہ ہوا۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ بچ جانے والی راکھ سے ہمدردی نہیں ہوا کرتی نہ ہی افسوس کیونکہ جلنا تو مقدر ہے ان کا ازل سے۔