ہم مسلمان ہیں بحیثیت مسلمان جب بھی کوئی کام کریں توہمیں سب سے پہلے یہ دیکھناچاہیے کہ ہم جوبھی کام کریں اسے ثواب بھی سمجھیں تو ضروری ہے کہ ہم دیکھیں کہ اس کے ثبوت پرکوئی دلیل قرآن وسنت سے بھی موجود ہے کہ نہیں کیونکہ دین اسلام نے کوئی بھی بات اور مسائل پوشیدہ نہیں رکھے جوانسان کی ضرورت ہو اور وہ اسلام نے بیان ناکئے ہوں اس سے بھی بڑھ کرقرآنِ مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے آج کہ دن دین اسلام مکمل ہوگیا جب یہ اعلان ہوگیاتواب اس میں کمی بیشی کی گنجائش باقی نہیں رہتی جس سے صاف ظاہرہے کہ رسم ورواج کاتوتصورہی باقی نہیں رہتا، اگرہم کوئی کام دین سمجھ کرکررہے ہیں تو اسکی دلیل ہونی چاہیے ہمارے پاس اس کیساتھ اس کام کے مقام،مرتبہ وثواب کی حیثیت کوسمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ فرض ہے،واجب ہے،سنت مؤکدہ ہے یاسنت غیر مؤکدہ پھر ہمیں اس پرعمل کرناچاھئے کیونکہ اسلام کی اپنی حیثیت ہے اپناوجود ہے اپنامقام ہے اسلام رسم ورواج کونہیں مانتاآج ہمارے معاشرے میں ہم مسلمانوں نے دین اسلام کی تعلیمات کوچھوڑکر رسم ورواج میں مبتلاء ہیں اسکی وجہ سوائے اس کے اورکچھ نہیں کہ ہم من پسند زندگی گزارناچاہتے ہیں اورایسے احکامات کوترجیح دیتے ہیں جوہمیں آسان بھی لگیں اور اس سے ہماری مصروفیات میں بھی کوئی فرق بھی ناپڑے اب آتے ہیں اصل ایصالِ ثواب کی طرف تو ایصالِ ثواب سے انکارممکن نہیں ایصالِ ثواب اسلام میں ہے لیکن جو طریقے ہمارے ہاں رائج ہیں انکااسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ ناتوفرض ہیں نا،واجب اور ناہی انکا قرآن وسنت سے کوئی تعلق ہے وہ مسلمانوں پرخاص کرغریب لوگوں پربوجھ بھی ہیں اور ان میں دکھلاوا بھی پایاجاتاہے اسلامی تعلیمات اس کے بلکل برخلاف ہیں اہل سنت والجماعت کامتفتہ عقیدہ ہے کہ جولوگ اس دنیاسے رخصت ہوجائیں انکے لئے دعابھی کی جاسکتی ہے اور اعمال ہدیہ بھی ان تمام صورتوں میں ہم انکے لئے دعا بھی کرسکتے ہیں قرآن مجیدبھی پڑھ سکتے ہیں،ذکر اذکار بھی کرسکتے ہیں،خیرات،حسنات اور صدقہ جاریہ کیلئے ایسے اعمال بھی کرسکتے ہیں اور مرحومین کیلئے کسی نیک کام میں جیسے مساجد ومدارس کی تعمیر میں حصہ لے سکتے ہیں کسی جگہ پانی کی قلت ہے تواسے بھی دور کرواسکتے ہیں ان سب صورتوں میں ایصالِ ثواب ہوجاتاہے سب سے بڑھ کر دعا اور جوخود پڑھ کربخشاجائے وہ بہترین ہے لیکن ہمارے ہاں جو طریقے رائج ہیں انکی وجہ سے غریب آدمی پر بہت زیادہ بوجھ پڑ جاتا ہے جیساکہ جب انسان کی موت واقع ہوتی ہے تو اسکے لواحقین کو خاندان رشتہ دار،عزیز و اقارب کو اطلاع دینے کے بعد انکے رہنے کھانے پینے کی فکر بھی لاحق ہوتی ہے اگر اس غم کے موقع پر رشتہ داروں کی خدمت میں کمی واقع ہوتو بجائے حوصلہ دینے کے طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں ہوناتو یہ چاہیے کہ خاندان والے دکھ درد کی اس گھڑی میں میت کہ لواحقین کو ہرطرح کی سہولیات فراہم کریں انکے کھانے پینے کابندوبست کریں ناکہ وہاں مہمان بن کران سے تواضع کی توقع اورامید رکھیں ان لواحقین کیلئے آسانی پیدا کریں ناکہ انکے لئے مشکلات کاسبب بنیں انکے دکھ درد بانٹنے کایہ بھی طریقہ ہے کہ ان سے ہمدردی کہ الفاظ کہنے کیساتھ ساتھ انکے کام،آرام انکے مہمانوں اور انکی ضروریات کاخیال رکھیں جنازہ میں جو اعلان ہوتاہے کہ کھانا کھا کہ جائیں جو قرب وجوار کہ لوگ ہیں انکو تو اپنے گھروں میں ہی جاکرکھاناچاہیے اور جو دور دراز سے سفر کرکہ آئیں ہیں پڑوسی اور دیگر رشتہ داروں کا کام ہے کہ انکے لئے وہ
بندوبست کریں یہ ضروری نہیں کہ میت کہ گھرمیں انکے سامنے دعوت کاماحول بناکر گپ شپ بھی لگائیں اور تواضع بھی کریں ایصالِ ثواب کاجو شرعی طریقہ ہے وہ ہے اس میت کہ لئے دعاخیر کی جائے اسکے لئے قرآن مجید،ذکر اذکار،کئے جائیں،اس کے نام کی خیرات کی جائے صرف کھانے پینے کی نیت سے محافل کا انعقاد اس میں شرکت کی بطور دعوت آنے والے مالداروں کو خصوصی دعوت یہ سب سمجھ سے بالاتر ہیں جبکہ میت کہ لواحقین تو میت کے ایصالِ ثواب کے لئے صدقہ خیرات وغیرہ کہ نام پر پکاکر تقسیم کر رہے ہوتے ہیں کھانے والے سب رشتہ دار اور مالدار شامل ہوتے ہیں اور یہ سب وہ لوگ ہیں جو کھانے کے مستحق نہیں ہیں ان میں سے اگر انہی لوگوں کو صدقہ زکوٰۃ خیرات کہ نام پر دعوت دی جائے تو سب ناراضگی کا اظہار کریں لیکن یہاں وہی سب لوگ یہ سب کچھ کھا رہے ہوتے ہیں حالانکہ نام ختم کا ہے نام تیجہ کا ہے نام ساتواں سالانہ کاہے لیکن ہے تو میت کی طرف سے خیرات صدقہ وغیرہ اس کھانے اور خدمت کہ لائق رشتہ دار نہیں غریب یتیم مساکین بیوہ اور مستحق لوگ ہیں جن میں سے کوئی بھی نظر نہیں آتاان کھانے پینے اوراس کے اہتمام کو ہی لوگ ضروری سمجھتے ہیں اور جو ان رسموں کواداء ناکریاسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے حالانکہ جولوگ ان رسموں کی وجہ سے دوسروں پر طنز کرتے ہیں ان کے بڑے،مذہبی راہنما بھی ان رسموں کو ضروری نہیں سمجھتے اور ناہی یہ فرائض واجبات اور سنن کا درجہ میں ہیں بلکہ جب اعلان ہوتاہے یااشتہار شائع کرتے ہیں تواس میں واضح الفاظ میں لکھا ہوتا ہے رسم قل جب یہ رسم ہی ہے تواسکااہتمام فرائض واجبات اور سنن سے بڑھ کر کیوں کیاجاتا ہے سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہے حضور نبی کریمﷺ کہ دور میں بھی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی وفات و شہادت ہوتی تھی خلفاء راشدین، تابعین، تبع تابعین آئمہ مجتہدین کہ ادوار میں بھی اس طرح جنازے پڑھے جاتے رہے لوگ تعزیت بھی کرتے رہے حوصلہ افزائی دینے کیلئے آتے لیکن یہ جو رسموں کی بھرمار ہمارے دور میں ہے اسوقت تک دور دور تک انکا نام ونشان ناتھا ہوتا بھی کی سیوہ لوگ تو فرائض واجبات اور سنن پر عمل کرتے انکے مطابق زندگی گزارتے ہماری طرح من چاہی زندگی نہیں گزارتے تھے اس سے بڑھ کر ظلم یہ دیکھیں کہ یہ رسمیں ہر کسی نے کرنی ہے چاہے وہ امیر، غریب، مسکین، یتیم،بیوہ ہی کیوں نا ہو حالانکہ اسلام نے تویہاں تک مسلمانوں پر فرق رکھا ہے کہ زکوٰۃ مالدار دیتے ہیں اگر کوئی مستحقِ ہے تو اسکو زکوٰۃ دی جاتی ہے مالدار پر حج ہے غریب پر نہیں وہ اس سے بڑھ کر فریضہ ہے وہاں رعایت ہے جبکہ ہماری رسم ورواج میں کوئی فرق نہیں نا کوئی رعایت اور اس بات کوبھی نہیں دیکھاجاتاکہ جو میت کہ لواحقین ہیں کیااسکے بچے یتیم تو نہیں رہ گئے اس صورت میں توبلاتقسیم وراثت اور بھی مفاسد پائے جاتے ہیں نابالغ کامال، یتیم کاحصہ،یہ سب قرآن وسنت کے خلاف کام ہیں ان پر خرچ کرنے کاحکم ہے ناکہ ان یتیم مسکین، بیوہ سے کھانے کااور ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے جب کوئی فوت ہوتا ہے تو عزیز و اقارب کو اور رشتہ داروں کو مقررہ دن پیغام بھیجا جاتا ہے اس میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے حالانکہ یہ سب غریب یتیم مساکین بیوہ وغیرہ پرناصرف بوجھ ہیں بلکہ ظلم ہے ہمارے ہاں صرف دعوت عام کو ہی ثواب سمجھاجاتاہے جبکہ تعلیمات اسلامی کہ مطابق تو دعا، نیک کام،نیک اولاد،تلاوت قرآن مجید،ذکراذکار کوبھی ثواب اور صدقہ جاریہ کہاگیااس طرف کوئی بھی متوجہ نہیں اور ختم میں شرکت والے بھی رشتہ دار مالدار وغیرہ شریک ہوتے ہیں حالانکہ صدقہ خیرات کے مستحق یہ نہیں ہیں جو مستحق ہیں انکی شرکت کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔
91