ایثار و قربانی کا لازوال واقعہ / عید الاضحٰی ماہ ذی الحج کی دسویں تاریخ کو منائی جاتی ہے اس سے ایک دن پہلے تمام دنیا کے صاحب توفیق لاکھوں مسلمان مکہ معظمہ میں حج کا فریضہ ادا کرتے ہیں اور وہیں عید الاضحٰی بھی مناتے ہیں۔ عید الضحیٰ کے دن مسلمان بھیڑ، بکری،گائے،بھینس یا اونٹ کی قربانی کرتے ہیں اسی لیے اس عید کو عید قرباں، یا بقرعید، یا عیدالاضحیٰ کہتے ہیں۔اضحیٰ کے معنی ہیں قربانی۔در حقیقت یہ عید حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد میں منائی جاتی ہے۔عید کے معنی خوشی کے ہیں،یہ خوشی کا تہوار ہے۔ سال میں دو عیدیں منائی جاتی ہیں ایک عید الفطر اوردوسری عید الضحیٰ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے 8ذی الحج کو خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ اپنے بیٹے کو اللہ کے نام پر ذبح کرو۔حضرت ابراہیم علیہ السلام جب بیدار ہوئے تو سوچا کہ یہ آیات اللہ پاک کی طرف سے ہیں یا شیطان نے وسوسہ ڈالا ہے؟آٹھ ذی الحج کو اسی لئے یوم ترویہ یعنی سوچ بچار کا دن بھی کہتے ہیں۔ 9ذوالحجہ کو عرفہ کہتے ہیں کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نویں تاریخ کی رات کو پھر وہی خواب دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے اسی دن یعنی 9 ذی الحج کو عرفات میں حج کا فریضہ بھی انجام دیا جاتا ہے اور دسویں تاریخ کو یوم نحر کہتے ہیں کیونکہ اسی روز سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی صورت پیدا ہوئی اور اسی یاد کو تازہ کرنے کے لئے خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مسلمان جانورکی قربانی ادا کرکے سنت ابراہیمی ادا کرتے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی عظیم الشان قربانیوں سے آراستہ ہے مگر حکم خداوندی کو پوراکرنے کے لئے اپنے لاڈلے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے نرم و نازک اورخوبصورت نورانی گلے پر اپنے ہاتھ مبارک سے پوری قوت کے ساتھ تیزدھار چھری کا چلانا قربانی کی ایک ایسی منفرد مثال ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔اللہ تعالیٰ کی حکم کی تعمیل کے مطابق بیٹے کی قربانی کاوقت تھا۔ باپ نے اپنے نو عمر فرزند سے پوچھا ”اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہاہوں، بتا تیری کیا مرضی ہے؟“ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے یہ رائے اس لیے نہیں پوچھی تھی کہ اگر بیٹے کی رائے ہو گی تو ایسا کروں گاورنہ میں اپنے بیٹے کو ذبح نہیں کروں گا بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رائے اس لیے پوچھی تھی کہ میری نبوت کا وارث اس آزمائش میں پورا اترتا ہے یا نہیں اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ اللہ کے حکم کے بارے میں بیٹے کا تصور کیا ہے؟ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی فرمابرداری نے سر کو جھکا دیا ارشاد فرمایا ”ابا جان،آپ وہی کیجئے جس کا آپ ؑکو حکم دیا گیاہے، انشاء اللہ،آپؑ مجھے عنقریب صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے“۔ (سورۃ الصفّٰت آیت 102)۔ یہ سن کرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے آگے بڑھ کر اپنے بیٹے کو لٹا دیا اور چھری کو چلانا شروع کیا تو آسمان اوردنیا کے فرشتے اطاعت خداوندی اور تسلیم و رضا کا یہ عالی شان منظر دیکھ کر ششدر رہ گئے، قریب تھا کہ چھری بیٹے کی گردن پرچل جاتی، اللہ کریم کی طرف سے ندا آئی ”اے ابراہیم ؑ، تم نے خواب کو سچ کر دکھایا، یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی، تم اس میں کامیاب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے جنت سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے قربانی کیلئے ایک دنبہ بھیج دیا اور یوں یہ سنت ابراہیمی قیامت تک ہرمسلمان صاحب استطاعت پر واجب کردی گئی۔ راہ حق میں جو قربانی حضرت اسماعیل ؑنے دی تھی اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کو خود ناز سے دیکھا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کوذبیح اللہ کا اعلیٰ اعزاز بخشا۔حضر ت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، یہ قربانی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (تمہارا فائدہ یہ ہے کہ تمہیں قربانی کے جانور کے) ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ انہوں نے پھر عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اون کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اون کے ہر بال کے عوض میں بھی ایک نیکی ملے گی (مشکوۃ شریف)۔ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال قربانی کی (مشکوٰۃ شریف) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قربانی کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں (ترمذی، ابن ماجہ)۔حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال قربانی کی (مشکوٰۃ شریف)
سورۃ الحج کی آیت نمبر37 پارہ نمبر17 میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:
اللہ تک تمہاری قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے تابع فرماں بنادیا ہے اس بات کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہدایت بخشی ہے۔ اس کی بڑائی بیان کرو اور اے پیغمبر،نیک لوگوں کو خوشخبری سنادیجئے۔
ان آیات میں صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ قربانی کا مقصد کیا ہونا چاہئے اور ایک مسلمان کو قربانی کس نیت سے کرنی چاہئے اور اس کے لئے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ سب سے پہلے تو رزق حلال، پھر نیت کا اخلاص، پھر قربانی کا جذبہ، ایثار کا جذبہ دوسروں کے لئے خدمت خلق کا جذبہ، اپنی جان مال، اولاد سب اللہ کا مال سمجھ کر خرچ کرنا، اپنا اختیار نہ رکھنا اور نہ سمجھنا۔ جو کچھ ہے اللہ کا ہے اور یہ نہ ہو کہ قربانی بھی کی اور اللہ کی رضا حاصل نہ ہوسکے یعنی مقصد پورا نہ ہو بلکہ الٹا ہم ایسا عمل کر گزریں جو اللہ کی نافرمانی کا سبب بن جائے۔حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عیدالاضحٰی کے دن پہلے نماز پڑھی پھر خطبہ دیا اس کے بعد قربانی کا جانور ذبح کیا اور آپ ؐنے فرمایا کہ”جو شخص نماز سے پہلے جانور ذبح کرچکا ہے اسے چاہئے کہ اس کے بدلے میں ایک اور جانور ذبح کرے۔“اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز عید سے پہلے آپ قربانی نہیں کرسکتے بلکہ نماز کے بعد خطبہ کے بعد اطمینان سے جانور کو پانی وغیرہ پلاکر آپ قربانی کریں گے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہی روایت مروی ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ”جس شخص نے نماز عید سے پہلے جانور ذبح کردیا اس نے محض اپنے گوشت کھانے کے لئے جانور ذبح کیا اور جس نے نماز عید کے بعد جانور ذبح کیا اس کی قربانی ادا ہوگئی اور اس نے مسلمانوں کے طریقہ پر عمل کیا یعنی سنت کے مطابق قربانی ادا کی۔قربانی کا وقت عید کی نماز اور خطبہ کے بعد شروع ہوتا ہے اور امام ابوحنیفہ ؒکے مطابق دس تاریخ سے شروع ہوکر تیرہ تاریخ تک رہتا ہے۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو مینڈھوں کی قربانی کی۔ ان دونوں کو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ذبح کیا اور ذبح کرتے وقت بسم اللہ،اللہ اکبر کہا اور اپنا پاؤں جانور کی گردن پر رکھا۔حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عجلت میں ذبح کرو اور ایسی چیز سے جو خون بہادے تاکہ جانور کو غیر ضروری اذیت نہ ہو۔ یعنی قربانی کرتے وقت آپ کی جو چھری یا جو آلہ ہے جس سے قربانی کرنی ہے وہ اتنی تیز ہو کہ فوراً ذبح ہوجائے تاکہ جانور کو کم سے کم اذیت ہو۔کتنی بڑی بات ہے کہ ہمارے دین نے ہمیں ہر طرح کی راہنمائی فرمائی یہاں تک کہ جانور کے بھی حقوق بتادیئے کہ ان کو تم سے کم تکلیف ہو۔ یہی ہمارے دین کی خوبصورتی ہے کہ جانور کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا جائے۔آپ سوچئے کہ انسان جواشرف المخلوقات ہے اس کے ساتھ حسن سلوک کی کیا اہمیت ہوگی، اس کا اجرو ثواب کیا ہوگا اس کا اندازہ حقوق العباد سے ہم بخوبی لگاسکتے ہیں۔
رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے گوشت کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ قربانی کا گوشت کھاؤ، مستحق لوگوں کو کھلاؤ۔ ذخیرہ بھی کرو یعنی اس بات کی اجازت مرحمت فرمادی کہ کھاؤ بھی اور ذخیرہ بھی کرو۔ امام نووی نے لکھا ہے کہ علماء کرام نے کہا ہے کہ ایک تہائی خود کھائے ایک تہائی صدقہ کردے اور ایک تہائی دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے تقسیم کرے۔ اب ہم خود ہی اندازہ کرسکتے ہیں کہ کس حد تک رکھنا ہے اور کس حد تک تقسیم کرنا ہے۔ ان تمام تر باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ عید الضحیٰ کا دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کرتا ہے جب انہوں نے حکم خدا وندی کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربانی کیلئے پیش کرکے اطاعت و ایثار اور قربانی کی لازوال مثال پیش کی تھی۔ اس عظیم قربانی کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک صاحب استطاعت مسلمانوں پر لازمی قرار دے دیا۔ آج اہل اسلام سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے قربانی کررہے ہیں۔ ہمیں اپنی زندگیوں میں اس قربانی کی عملی مثال قائم کرنا ہوگی کیونکہ موجودہ مسائل سے نمٹنے کے لیے ایثار و قربانی اور اخوت کے جذبے کی ضرورت ہے۔صاھب استطاعت مسلمانوں کو چاہئے کہ عید الاضحی کے ایام میں پورے ذوق وشوق کے ساتھ سنت ابراہیمی زندہ کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کریں، اور عید الاضحی کی خوشیوں میں غرباء و مساکین اور محتاجوں کو بھی شامل کریں، اور رسمی رکھ رکھاؤ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غریب لوگوں کو بھی گلے سے لگائیں گے کیونکہ سچی خوشی تو وہی ہے جو آپ کو ردعمل کے طور پر ملے اور جب کسی دکھی، غریب، کمزور کی تکلیف،پریشانی،بھوک،غربت دور کی جاتی ہے تو اس سے حقیقی خوشی ملتی ہے۔تحریر میں اگر کوئی غلطی،کوتاہی ہوگئی ہوتو رب باری تعالیٰ سے معافی کی درخواست گذار ہوں۔میری دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تمام اہل اسلام کی سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لئے دی جانے والی قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے، آمین۔
584