85

اُلوّراج/عامر محمود ملک

نہ جانے اسے ایسی کیا پریشانی اور فکر لاحق تھی کہ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور ہو گئی۔ لاکھ کوشش کے باوجود آج وہ سو نہیں پا رہا تھا، بالآخر اس نے قصہ گو کو بلانے کا حکم دیا تا کہ وہ اس کے دل کو بہلانے کے لئے کوئی ایسا دلچسپ قصہ یا کہا نی سنائے جس سے اسے نیند آ جائے۔ قصہ گو ایک دانا آ دمی تھا وہ بادشاہ کی پریشانی، فکر اور بے چینی کو بھانپ چکا تھا، اس نے بادشاہ کو ایک کہانی سنائی کہ حضور، ایک شہر میں ایک الو رہتا تھا ، اس نے دوسرے شہر میں رہنے والے ایک الو کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنی لڑکی کی شادی اس سے کر دے۔ تو دوسرے شہر میں رہنے والے الو نے جواب دیا کہ میں اپنی لڑکی تمھارے ساتھ اس شرط پہ بیاہنے کے لئے تیار ہوں کہ تم میری لڑکی کو ایک سو کھنڈر علاقے مہر میں دو گے۔ تو پہلے شہر میں رہنے والے الونے جواب دیا کہ میں سر دست تو اتنی تعداد میں کھنڈر علاقے مہیا نہیں کر سکتا ، مگر ہاں دعا کرو کہ ہمارے بادشاہ سلامت کی عمر دراز ہو، اگر یہ ایک سال بھی اور زندہ رہے تو ایسے کھنڈر علاقے سو کی تعداد میں مل جانے مشکل نہیں۔ قصہ گو کی یہ کہانی سن کر بادشاہ چونکا اور اس کے سارے مظالم اس کے سامنے آ گئے جو اس نے لوگوں پہ کیے تھے، کہ اس کی غلط پالیسیوں اور جنگی جنون کی وجہ سے شہر کے شہر تباہ ہو کر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے اور نہ جانے کتنے ہی لوگ مارے گئے۔ اس کہانی کا اس پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ آئندہ اس نے ظلم سے ہاتھ ہٹا لیا اور پر امن پالیسی کو فروغ دیا۔ ہمارے پڑوس میں بھی بالکل اسی طرح کا جنگی جنون رکھنے والا ایک بادشاہ رہتا ہے، جس کا جنگی جنون اور پاگل پن روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ آئے دن لائن آف کنٹرول پہ جھڑپیں معمول بن چکی ہیں، جن میں دونوں طرف سے فوج اور عام شہریوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ بھارت پاکستان پر گزشتہ ستر سالوں میں تقریباً تین بڑی جنگیں مسلط کر چکا ہے، اور اب بھی اس کا جنگی جنون قابو میں نہیں آ رہا، اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کر کے ہم پر برتری حاصل کرنے کے لئے اپنے تمام تر وسائل دفاع کے شعبے میں خرچ کر دیے، جب کہ بھارت کی عوام کا ایک بہت بڑا حصہ غربت ، مہنگائی، بے روزگاری ، بیماری، ناخواندگی جیسے بے شمار مسائل کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جبکہ بھارت کے حکمران عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے اور ان کو زندگی کی بہترین سہولیات مہیا کرنے کی بجائے فوجی طاقت کو بڑھانے، جدید اور مہلک ہتھیاروں کی خریداری اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف عمل ہیں۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان کو بھی اپنے دفاع کے لئے مجبوراً اپنے وسائل کو دفاع کے شعبے میں خرچ کرنا پڑتے ہیں، جس کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت اس وقت دنیا کی تیسری بڑی فوج جبکہ پاکستان جنگی طاقت کے لحاظ سے دنیا کی چھٹی بڑی فوج بن چکی ہے۔ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی طاقت کا بخوبی اندازہ ہے، بھارت دفاعی شعبے میں تعداد کے لحاظ سے ہم سے آگے سہی لیکن جوش، جذبے، دلیری، بہادری اور شجاعت میں وہ ہماری فوج کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں جاری دہشت گردی اور قتل و غارت کو جس طرح ہماری فوج نے جڑوں سے نیست و نابود کیا اس کی دنیا میں کہیں کوئی مثال نہیں ملتی، یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا ہماری فوج کی بہادری اور دلیری کی معترف ہو چکی ہے۔ بھارت کشمیر میں کھیلی جانی والی خون کی ہولی سے دینا کی توجہ کو ہٹانے کے لئے پاکستان کے بارڈر پہ آئے دن شرارتیں کرتا ہے، جو مستقبل میں کسی بھی بڑے حادثے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ مزید جلتی پہ تیل یہ ڈالا کہ بھارت کے وزیر اعظم نے پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ اس سے حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ اگر حالات اسی طرح ہی رہے، بھارت نے اپنے معاملات درست نہ کیے اور اپنی جنگی پالیسی کو تبدیل نہ کیا تو عین ممکن ہے کہ کسی بھی وقت دونوں ممالک کے مابین ایک بڑی جنگ کا آغاز ہو جائے۔ نریندر مودی جیسا بے عقل اور بے حس آدمی اگر مزید ایک دو سال تک بھارت کا وزیر اعظم رہا تو عین ممکن ہے کہ بھارت پاکستان پر ایک اور جنگ مسلط کر دے، لیکن اب کی بار ہونے والی جنگ پہلی تینوں جنگوں سے قطعی مختلف ہو گی۔ دونوں طرف سے جدید اور تباہ کن ہتھیار استعمال ہوں گے۔ اور دونوں طرف کے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو جائیں گے، جن میں صرف الو راج کریں گے۔ بھارتی عوام سے اپیل ہے کہ اس سے پہلے کہ ہمارے شہروں میں الو راج کریں یہ کہانی اپنے وزیر اعظم کو بھی سنائیں، ہو سکتا ہے کہ ان کو بھی ہوش آ جائے اور وہ جنگی جنون کو ترک کر کے پر امن پالیسی کو فروغ دے، اپنے تمام وسائل جنگ کی آگ میں جھونکنے کی بجائے عوام کی فلاح و بہبود پہ خرچ کرے، اس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ ہو گا۔ اگر نہیں تو پھر الو راج کے لئے تیار ہو جائیں۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں