83

اُردُو زبان کا نفاذ،اصل رکاوٹ کیا ہے؟

4مئی 1799 میں جب انگریزوں نے غداروں کی مدد سے سلطان فتح علی ٹیپو کو شہید کر دیا تو بقول ان کے اب برصغیر پاک وہند پر عملًا ان کا قبضہ ہوچکا تھا۔سلطان کی شہادت کے ایک سال بعد جولائی 1800 میں انگریز سرکارنے کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کی بنیاد رکھی جس میں اُردُو کے علاوہ مقامی زبانوں میں انگریزی،عربی اور دیگر زبانوں سے کتب کے تراجم کروا کر شائع کئے گئے جس کیلئے ہندوستان سے ہی عالمین کی وظیفہ پر خدمات حاصل کی گئیں۔اس سے پہلے ہندوستان کی دفتری زبان فارسی تھی اب بھی مغل تعمیرات میں کندہ فارسی عبارات واشعار دیکھے جاسکتے ہیں۔فورٹ ولیم کالج کے قیام کا ایک مقصد ہندوستان سے فارسی زبان کا عمل دخل ختم کرنا بھی تھا اس کے ساتھ ساتھ انگریزی تعلیم کو رواج دینے کیلئے ہندوستان بھر میں سلطنتِ برطانیہ کے زیرِ انتظام مشنری سکول قائم کئے گئے جو اب تک مشن سکول کے نام سے چل رہے ہیں۔
فورٹ ولیم کالج میں جن کتب کا اُردُو زبان میں ترجمہ ہوا اُن کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو ایک دو کتب کے علاوہ تمام کتب ایسی ہیں جن میں مافوق الفطرت واقعات ہی بیان ہوئے ہیں ایسی داستانیں وقت گزاری کیلئے تو بہترین ہیں مگر انہیں پڑھ یا سُن کر انسان عملی امُور کی انجام دہی سے کوسوں دور چلا جاتا ہے۔
جیسے الف لیلہ، قصہ چہار درویش، باغوبہار، کلیہ ودمنہ، آرائشِ محفل، توتا کہانی وغیرہ اس قسم کی داستانوں کا مقصد مسلمانوں کو عمل سے دُور کرنے کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔قیامِ پاکستان کے بعد قائدِ اعظم محمد علی جناع نے اُردُو زبان کو قومی زبان قرار دیا کیوں کہ پورے ملک میں صرف اُردُو ہی واحد رابطے کی زبان ہے پاکستان میں کافی عرصہ تک ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم میں معاون افراد کے نام اُردُو میں ہی لکھے جاتے رہے اس کے علاوہ شہروں کی گلی نمبر، سرکاری ونجی عمارات کے نام بھی اُردُو میں لکھے جاتے رہے مگر رفتہ رفتہ انگریزی کو رواج دیا جانے لگا۔
قیامِ پاکستان کے بعد قائدِ اعظم محمد علی جناع نے اُردُو زبان کو قومی زبان قرار دیا کیوں کہ پورے ملک میں صرف اُردُو ہی واحد رابطے کی زبان ہے پاکستان میں کافی عرصہ تک ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم میں معاون افراد کے نام اُردُو میں ہی لکھے جاتے رہے اس کے علاوہ شہروں کی گلی نمبر، سرکاری ونجی عمارات کے نام بھی اُردُو میں لکھے جاتے رہے مگر رفتہ رفتہ انگریزی کو رواج دیا جانے لگا۔
صدرِ پاکستان جرنل محمد ضیاء الحق نے 1977 میں وعدہ کیا تھا کہ پندرہ سالوں میں اُردُو کا نفاذ یقینی بنایا جائے گا 2015 میں عدالتِ عظمٰی نے بھی یہ فیصلہ سنایا تھا کہ اُردُو کے نفاذ کیلئے حکومت فورًا اقدامات کرے مگر ابھی تک ایسا ممکن نہ ہوسکا افسوس تو اس بات کا ہوتا ہے کہ عدالتیں مقدمات کے فیصلے بھی انگریزی میں ہی تحریر کرتی ہیں۔
پاکستان میں اُردُو زبان کی ترویج وترقی کیلئے بہت سے ادارے کام کر رہے ہیں جن میں انجمن ترقی اُردُو کراچی جو بابائے اُردُو مولوی عبدالحق نے قائم کیا تھا آپ کی کوششوں سے وفاقی اُردُو کالج کا قیام فیلڈ مارشل ایوب خان کے ہاتھوں ہوا اس کالج میں سائنسی مضامین کی
تعلیم اُردُومیں دی جاتی رہی میں نے اس ادارے سے چارسال تعلیم حاصل کی۔اُردُو کے فروغ کے دیگر اداروں میں مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، اُردُو سائنس بورڈ لاہور، اُردُو ڈکشنری بورڈ کراچی وغیرہ شامل ہیں ان اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کروڑوں میں تنخواہ وصول کرتے ہیں مگر عملًا اُردُو کی ترویج وترقی کیلئے کوئی خاص کام نہیں کرتے۔اُردُو زبان کے نفاذ کیلئے کوشش کرنا ہم سب پر لازم ہیں پہلے قدم کے طور پر ہمیں اُردُو زبان کو اپنے اُوپر لاگو کرنا ہوگا اپنے روزمرہ کے معاملات میں خط وکتابت اور کاروباری معاہدوں کو قومی زبان میں ہی تحریر کرنا ہوگا اور رومن اُردُو کے چُنگل سے بھی باہر نکلنا ہوگا تاکہ دنیا کی دیگر اقوام کو پتہ چل سکے کہ پاکستانی قوم دورِ غلامی کی نشانی انگریزی کی بجائے اُردُو زبان کے ذریعے اپنا علٰیحدہ تشخص قائم رکھ سکتی ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں