آصف خورشید‘ پنڈی پوسٹ رپورٹ
اثر نہ کرے نہ کرے سن تولے مری فریاد نہیں ہے داد کا طالب یہ بندہ آزاد
تحصیل کلر سیداں کا سب سے پسماندہ علاقے انچھوہا پر تبدیلی کے اثرات کا بھی اثر نہ ہوا ۔ بلند و بالا دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔ گزشتہ دو حکومتوں کے پاٹوں میں پسنے کے بعد یہ علاقہ تبدیلی کے سبز جھونکے میں بھی نہ آسکا ۔ گزشتہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی ابھی تک کوئی خا ص توجہ نہیں دی ۔تبدیلی کے دعوے دار یہا ں کے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی نے بھی کامیابی کے بعد علاقے کو نہ صر ف نظر انداز کردیا بلکہ غیروں کے رحم و کرم پر چھو ڑ دیا۔ الیکشن 2018 میں دونوں بڑی پارٹیوں سے تنگ آکراہل علاقہ نے تیسری پارٹی کو تبدیلی کی بنیا د پر آزمایا۔ کہ شاید یہ پارٹی اس علاقے کی بہتری کے لیے سوچے جس کی ان کو امید بھی تھی۔مگر چھے ماہ گزرنے کے باوجود کسی حکومتی نمائندے نے اس علاقہ انچھوہا کی زبو حالی کو نہ دیکھا۔یہاں سے منتخب ایم پی اے جو الیکشن سے پہلے تو ہر ہفتے آتے اور بلند و بالا دعوے کرتے مگر اس کے بعد وہ بھی اقتدار کے نشے میں یہ بات بھول گئے کہ پھر بھی عوام کی عدالت میں جانا ہو گا۔ جن کھوکھلے نعروں کو الیکشن 2018میں اپنی تقاریرکی زینت بنا کر اس علاقے کے لوگوں سے ووٹ لیا گیا ۔ کسی ایک پہ بھی کام شروع نہ ہو سکا ۔ جن مسائل کی نشاندہی کرا کر ووٹ لیا گیا وہ آج بھی جوں کے توں ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہی ہواہے ۔
علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ پختہ سڑک کا مطالبہ تھاسر صوبہ شاہ سے الف چوک تک سڑک کا یہ ٹکرا جو کہ تقریبا6کلو میٹر پر مشتمل ہے جس سے درجنوں دیہات منسلک ہیں ۔پورے علاقے کا واحد رستہ ہونے کے با وجود کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے سڑک پہ گاڑی میں سفر کرنا تو دور جبکہ پیدل چلنا بھی محال ہو چکا ہے راجہ پرویز اشرف کا قومی اور راجہ صغیر احمد کا صوبائی حلقہ ہونے کے باوجودسابقہ حکومتوں کی طرح یہ آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔الیکشن سے قبل چوہدری عظیم اور راجہ صغیر احمد کو نہ صرف اس مسئلے سے آگاہ کیا گیا بلکہ اس کا با قاعدہ وزٹ بھی کرا یا گیا ۔ مگر تا حال اس پر کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔ اس طرح اس علاقے میں قائم پرائمری سکول کو اپ گریڈ کرنا تو دور کی بات بنیادی سہولیات تک نہ دی جا سکی ۔ سکول کا رستہ نہ ہونے کی وجہ سے بچے کھیتوں سے گزر کر سکول جاتے ہیں ۔پرائمری سکول انچھوہا کی بلڈنگ انتہائی تنگ ہے۔ جبکہ پرائمری سکول دھمنال لیڈیز سٹاف ہونے کے باوجود چار دیواری نہ ہونے کے برابر ہے۔ کمرے انتہائی خستہ حال ہیں جو کسی بھی وقت بڑے حادثے کا سبب بن سکتے ہیں ۔ خستہ حال کمروں میں پڑا ہوا بوسیدہ فرنیچر نہ صر ف حکومتی عدم توجہ کامنہ بولتا ثبوت ہے بلکہ تبدیلی کے نام پر دھبے سے کم نہیں ۔ علاقے کے تین پرائمری سکول ہیں ۔کلاس روم کی کمی تو اپنی جگہ آفس تک نہیں ۔جہاں ٹیچر اگھٹے بیٹھ کر سلیبس بھی ترتیب دے سکیں ۔ پیرنٹ میٹنگ کی صورت میں کرسیاں تک گھروں سے منگوائی جاتی ہیں ۔علاقے کے سکول ویران جگہ ہونے کے باوجود تمام تر لیڈیز سٹاف ہے ۔ اور تینوں سکولوں میں ایک بھی چوکیدار نہیں ۔ میڈیکل کی بات کی جائے تو پورے علاقے میں ایک بھی ڈسپنسری نہیں جہاں لوگوں کے دکھوں کا مداوا ہو سکے ۔ اس کے علاوہ بے شمار مسائل جو سابقہ حکومت ورثے میں چھوڑ کر گئی چھے ماہ گزرنے کے باوجود آج بھی جوں کے توں ہیں ۔ اہل علاقہ نے پر امید ہو کر تبدیلی کا استقبال کیا ۔مگر تاحا ل اس علاقے پر تبدیلی کے کوئی اثرات مرتب نہ ہوسکے ۔
102