175

انسان کیلئے معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ بیوی بچوں کی مناسب دیکھ بھال اوروقت دینا بھی بہت ضروری ہے

حضرتِ عمر فاروقؓ نے اپنی زوجہ محترمہ سے پوچھا کہ تم میری دُوری کو کتنا عرصہ برداشت کر سکتی ہو زوجہ محترمہ نے نہایت ادب سے جواب دیا زیادہ سے زیادہ چھ ماہ۔۔۔ مراردِرسولؐ نے فوراً فرمان جاری کیا کہ کسی فوجی کو

تحریر:عدنان فاروق

حضرتِ عمر فاروقؓ نے اپنی زوجہ محترمہ سے پوچھا کہ تم میری دُوری کو کتنا عرصہ برداشت کر سکتی ہو زوجہ محترمہ نے نہایت ادب سے  جواب دیا زیادہ سے زیادہ چھ ماہ۔۔۔ مراردِرسولؐ نے فوراً فرمان جاری کیا کہ کسی فوجی کو چھ ماہ سے زیادہ عرصہ محاذ پر نہ روکا جائے اور ہر سپاہی کو چھ ماہ کے بعد چھٹی دی جائے۔ مرادِ رسولؐ کا یہ فرمان تمام دُنیا کی سپاہ پر تاحال لاگو ہے اور شدید جنگ کیصورت میں بھی اس من وعن عمل کیا جاتا ہے۔

جبکہ برطانیہ نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران اپنے فوجیوں کے دل بستگیوں کیلئے چھاؤنیوں کے نزدیک پیشہ ور عورتوں کے اڈے بسائے اور انہیں مکمل تحفظ بھی دیا۔ مگر عساکرِ اسلامی نے اپنے سپاہ کی کردار سازی پر تاحال بھرپور توجہ رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ قلیل تعداد کثیر پر بھاری ہے۔

تلاشِ معاش کے سلسلے میں ہجرت کا سلسلہ بھی اتنا ہی پرانا اہے جتنا اولادِ آدم کا وجود مگر زیادہ تر لوگ زمین کا سینہ چیر کر اپنی معاشی ضروریات کو پورا کر تے تھے اور آج بھی آبادی کا 75%طبقہ اسی شعبۂ زراعت سے وابستہ ہے جو سخت سردی اور شدید گرمی کی پروا کیے بغیر زمین کا سینہ چیر کر نہ صرف اپنی بلکہ شہروں میں رہنے والے باسیوں کی خوراک کا بھی بندوبست کرتے ہیں

۔60ء کی دہائی سے قبل وطن عزیز کے زیادہ تر لوگ دیہات سے شہروں کا رُخ کرتے تھے اور فصل کی تیاری تک شہروں میں کام کاج کرتے اور کٹائی کا موسم شروع ہوتے ہیں یہی لوگ اپنے اپنے دیہاتوں کو لوٹ جاتے تھے۔60ء کی دہائی میں جب وطن عزیز میں پہلی بار مارشل لاء لگا تو سیاسی عدم استحکام مزید شدید ترہو گیا جسکے بطن سے معاشی عدم مساوات نے جنم لیا اور ملکی دولت اور وسائل چند خاندانوں تک محدود ہو گئے زیادہ تر لوگوں نے سیاسی پناہ کے بہانے مغربی ملکوں کابالعموم اور برطانیہ کا بالخصوص رُخ کیا وہاں کی چکا چوند اور ترقی کے مواقع وافر ہونے کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت وہاں آباد ہونے لگی پھر بھی صورتحال اتنی ابتر نہ ہوئی تھی

مگر بدقسمتی سے70ء کی دہائی میں سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد جب باقی ماندہ پاکستان کے معاشی حالات انتہائی دگرگوں ہو گئے اور راشن بندی ہونے لگی تو ایسے میں ذوالفقار علی بھٹو جو خارجہ امور کے نہ صرف ماہر تھے بلکہ دُنیا کے بیشتر حکمرانوں سے ذاتی مراسم تھے۔ بالخصوص74ء کی اسلامی سربراہی کانفرنس کا میزبان ہونے کی وجہ سے اسلامی ممالک میں انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا اور خلیجی ریاستوں کے حکمران اور بالخصوص سعودی عریبیہ کے شاہ فیصل (مرحوم) سے تو انکے تعلقات ضرب المثل تھے۔

عرب کے صحراؤں میں جب سیال سونادریافت ہو ا تو مغربی ممالک نے اور بالخصوص امریکہ نے اس خطہ پر اپنے پنجے گاڑھنا شروع کر دئیے جبکہ بھٹو (مرحوم) نے عرب کے شیوخ کو پاکستان سے افرادی قوت منگوانے پر راضی کر لیا چنانچہ گرین پاسپورٹ پر سینکڑوں لوگ سہانے مستقبل کی خاطر عرب کے صحراؤں کا رُخ کرنے لگے جس کے نتیجے میں عرب کے صحرا شاداب ہونے لگے

دوسری جانب وطن عزیز کے متوسط طبقے کے لوگ بھی خوشحال ہونے لگے مگر اس خوشحالی نے بہت سی دوسری معاشرتی برائیوں کو جنم دینا شروع کر دیا۔ وفاشعاری کی جگہ ہوس اور کچے آنگن کے سکون کی جگہ پکے چوباروں میں بے سکونی نے ڈیرے ڈال دیے۔

جو بچے شام ڈھلے اپنے باپ کی راہ دیکھتے تھے وہ باپ کی صورت بھول گئے عورتیں سہاگن ہونے کے باوجود بیوہ جیسی زندگی اور بچے باپ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو یتیم محسوس کرنے لگے۔ انسانی فطرت کے تقاضوں نے وفاؤں کے انداز بدل ڈالے جس کا لازمی نتیجہ عدالتوں میں طلاق اور مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو گستاخ بنا ڈالا جسکے نتیجے میں جن بچوں کے سہانے مستقبل کی خاطرباپ نے عرب کے صحراؤں کی خاک چھانی تھی وہی بڑھاپے کی لاٹھی کی بجائے دکھ کا باعث بننے لگے نتیجتاً آج اولڈ ایج ہاؤس جنکا تصور کبھی وطنِ عزیز کے لوگوں نے نہ کیا تھا وہ آباد ہونے کو ہیں۔

انسان کیلئے معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ بیوی بچوں کی مناسب دیکھ بھال اوروقت دینا بھی بہت ضروری ہے۔ مانا کے وطن عزیز کے معاشی حالات اتنے بہتر نہیں اور نہ ہی روزگار کے اتنے زیادہ مواقع میسر ہیں مگرسالہا سال گھر سے دُوری بہت سی معاشرتی بُرائیوں اور مخصوص مشرقی وفاؤں کیلئے زہر قاتل ہے وہ سہاگن شادی کے فوراً بعد سالہا سال کی دُوری برداشت کیسے کر سکتی ہے

جسکے ہاتھوں کی مہندی بھی ابھی نہ اتری ہو۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کم ازکم چھ ماہ کے بعد دوماہ کی رخصت لیکر گھر آتے مگر خلیجی ریاستوں کی دوسالہ ویزہ پالیسی نے تمام ارمانوں کا خون کرڈالا۔وطن عزیز کے ارباب اقتدار کو بھی چاہیے کہ وہ سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کو سمجھیں اور ان کے تدارک کیلئے کوئی راست قدم اُٹھائیں۔

میں جب بھی کسی خوشحال ملک کے ویزہ سیکشن کے سامنے میلوں لمبی قطار دیکھتا ہوں تو چشم تصور میں نوبیاہتا سہاگنوں کے مرجھائے چہرے اور معصوم بچوں کی ترستی نگاہیں ایک لمبی آہ بھرنے پرمجبور کر دیتی ہیں اور دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ یا اللہ وطن عزیز کوبہتر قیادت اور خوشحالی عطا فرما!

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں