کہانیاں معاشرتی نظام کو تباہ کر دیتی ہیں ایسی کہانیاں جہاں تخیل کے لوازمات ہوں حقیقت نہ ہو فرض کر لیا جائے پھر فرض کیے گئے خیالات کو حقیقت کا لبادہ اوڑھا دیا جائے جب اپنے عمل اور دوسرے کے عمل کو تولا نہ جائے جہاں ٹیس اور ٹھیس پہنچانے میں کسر نہ چھوڑی جائے جہاں خود کو تو اشرف المخلوقات اور دوسرے کو مخلوق تک نہ سمجھا جائے جہاں ایک کے سامنے کچھ دوسرے کے سامنے کچھ ہجوم کے سامنے کچھ تنہائی میں کچھ جہاں ذر کو ہی درجہ دیا جائے جہاں تولہ ماشہ جہاں تماشہ بن کر بھی سمجھ نہ آئے تو تخلیاتی نظام سے اصل کی طرف لوٹ جانا چاہیے فرضی کہانیاں سننے اور ان کو سچ ماننے والے تباہ ہو جاتے ہیں عمل سے وہ ثابت ہونا چاہیے جو کہا ہو قول و فعل کا تضاد معاشرے کو دیمک کی طرح تباہ و برباد کر دیتا ہے ظاہری طور پر ٹھیک جسامت اصل میں کھوکھلا پن ہی ہوتا ہے دولت کی ریل پیل بناوٹی زندگی دکھاوے کے عمل میں سرمایہ لٹانے والے بھی اک دن اس جہاں سے چلے جائیں گے کسی کو کیا دیا کسی کو کیوں دیا خود ایسا ہے خود ویسا ہے سچ بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے چھپاتا ہے بتاتا ہے نہیں بتاتا ہے اچھا پہنتا ہے نہیں پہنتا ہے سادہ رہتا ہے دکھاوا کرتا ہے ہنستا ہے روتا ہے سوتا ہے جاگتا ہے بناتا ہے نہیں بناتا رہے نام اللہ کا اصل زندگی گزارنے کا ابھی تک نہیں پتا چلا تو کب چلے گا حاصل سے لاحاصل تک ایسی بحث میں پڑیں گے تو حاصل کچھ نہیں ہو گا ہمیں یقین کامل ہونا چاہیے کہ میرا وجود ذرا بے نشاں ہے ہر چیز اللہ کی دسترس میں ہے وہ جسے جتنا جب دے دے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے کچھ چیزیں سوچیں ہم سے پہلے کروڑوں مسلمان آئے چلے گئے ان میں ماسوائے لاکھوں کے جن کو اللہ نے اپنے گھر کی زیارت کروائی مقامات مقدسہ دکھلائے باقی اس اس میں بن دیکھے چلے گئے ہم کو اللہ پاک ٹیلی ویژن موبائل نیٹ کے ذریعے گھر بیٹھے زیارت کروا رہا ریمورٹ کے ایک بٹن سے بیت اللہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کروا رہا پرانے بادشاہوں کو پنکھے ہیٹر کولر گاڑی جہاز آرام دہ زندگی جو عام افراد کو اس دور میں میسر ہے انکو سونے چاندی ہیرے جواہرات کے بھرے صندوق ہونے کے باوجود میسر نہ ہو سکیں وہ پوری زندگی سفر کر کے جہاں پہنچتے میرا رب وہ ذات رحیم میرا اللہ چند گھنٹوں میں پہنچا دیتا ہے پوری دنیا کو کھول کر سامنے رکھ دیا تو سب تو رحمان رحیم ذات نے دے دیا تو حق سچ کھڑے کھوٹے میں تمیز کیوں نہیں کر سکتے ہم آج بھی فرضی کہانیوں چھوٹے مکر کو سچ ماننے کو کیوں تلے ہوئے ہیں آؤیہ عہد کریں کہ ہم حق اور سچ کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور چند دن کی زندگی جس کے اگلے لمحے کا بھروسہ نہیں اس کے لیے اپنی آخرت کو خراب نہیں کریں گے انشاء اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ یورپ کے نظام زندگی کے دلدادہ
وہ اپنے طفل کی منائیں گے سال گرہ
طفل جن کا ہوا 29 فروی کو پیدا
حسرت و یاس تین سال کو گزر گئے
320