320

انسان کیا چاہتا ہے

کہانیاں معاشرتی نظام کو تباہ کر دیتی ہیں ایسی کہانیاں جہاں تخیل کے لوازمات ہوں حقیقت نہ ہو فرض کر لیا جائے پھر فرض کیے گئے خیالات کو حقیقت کا لبادہ اوڑھا دیا جائے جب اپنے عمل اور دوسرے کے عمل کو تولا نہ جائے جہاں ٹیس اور ٹھیس پہنچانے میں کسر نہ چھوڑی جائے جہاں خود کو تو اشرف المخلوقات اور دوسرے کو مخلوق تک نہ سمجھا جائے جہاں ایک کے سامنے کچھ دوسرے کے سامنے کچھ ہجوم کے سامنے کچھ تنہائی میں کچھ جہاں ذر کو ہی درجہ دیا جائے جہاں تولہ ماشہ جہاں تماشہ بن کر بھی سمجھ نہ آئے تو تخلیاتی نظام سے اصل کی طرف لوٹ جانا چاہیے فرضی کہانیاں سننے اور ان کو سچ ماننے والے تباہ ہو جاتے ہیں عمل سے وہ ثابت ہونا چاہیے جو کہا ہو قول و فعل کا تضاد معاشرے کو دیمک کی طرح تباہ و برباد کر دیتا ہے ظاہری طور پر ٹھیک جسامت اصل میں کھوکھلا پن ہی ہوتا ہے دولت کی ریل پیل بناوٹی زندگی دکھاوے کے عمل میں سرمایہ لٹانے والے بھی اک دن اس جہاں سے چلے جائیں گے کسی کو کیا دیا کسی کو کیوں دیا خود ایسا ہے خود ویسا ہے سچ بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے چھپاتا ہے بتاتا ہے نہیں بتاتا ہے اچھا پہنتا ہے نہیں پہنتا ہے سادہ رہتا ہے دکھاوا کرتا ہے ہنستا ہے روتا ہے سوتا ہے جاگتا ہے بناتا ہے نہیں بناتا رہے نام اللہ کا اصل زندگی گزارنے کا ابھی تک نہیں پتا چلا تو کب چلے گا حاصل سے لاحاصل تک ایسی بحث میں پڑیں گے تو حاصل کچھ نہیں ہو گا ہمیں یقین کامل ہونا چاہیے کہ میرا وجود ذرا بے نشاں ہے ہر چیز اللہ کی دسترس میں ہے وہ جسے جتنا جب دے دے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے کچھ چیزیں سوچیں ہم سے پہلے کروڑوں مسلمان آئے چلے گئے ان میں ماسوائے لاکھوں کے جن کو اللہ نے اپنے گھر کی زیارت کروائی مقامات مقدسہ دکھلائے باقی اس اس میں بن دیکھے چلے گئے ہم کو اللہ پاک ٹیلی ویژن موبائل نیٹ کے ذریعے گھر بیٹھے زیارت کروا رہا ریمورٹ کے ایک بٹن سے بیت اللہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کروا رہا پرانے بادشاہوں کو پنکھے ہیٹر کولر گاڑی جہاز آرام دہ زندگی جو عام افراد کو اس دور میں میسر ہے انکو سونے چاندی ہیرے جواہرات کے بھرے صندوق ہونے کے باوجود میسر نہ ہو سکیں وہ پوری زندگی سفر کر کے جہاں پہنچتے میرا رب وہ ذات رحیم میرا اللہ چند گھنٹوں میں پہنچا دیتا ہے پوری دنیا کو کھول کر سامنے رکھ دیا تو سب تو رحمان رحیم ذات نے دے دیا تو حق سچ کھڑے کھوٹے میں تمیز کیوں نہیں کر سکتے ہم آج بھی فرضی کہانیوں چھوٹے مکر کو سچ ماننے کو کیوں تلے ہوئے ہیں آؤیہ عہد کریں کہ ہم حق اور سچ کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور چند دن کی زندگی جس کے اگلے لمحے کا بھروسہ نہیں اس کے لیے اپنی آخرت کو خراب نہیں کریں گے انشاء اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ یورپ کے نظام زندگی کے دلدادہ
وہ اپنے طفل کی منائیں گے سال گرہ
طفل جن کا ہوا 29 فروی کو پیدا
حسرت و یاس تین سال کو گزر گئے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں