85

اندھا دُھند/عامر محمود

کسی زمانے کی بات ہے، یورپ کے کسی ملک سے ایک انگریز خاتون پاکستان آئی، وہ کسی سفر پہ تھی ، گاڑی جب ریلوے پھاٹک کے پاس پہنچی تو پھاٹک بند ہو گئی، کیونکہ اس وقت ریل گاڑی نے وہاں سے گزرنا تھا۔ اس لئے اس کی گاڑی بھی رک گئی۔ اس کی گاڑی کے علاوہ اور بھی بہت ساری گاڑیاں رک گئیں اور پھاٹک کے کھلنے کا انتظار کرنے لگیں۔ اتنے میں سائیکل پر سوار ایک آدمی آیا۔ اس نے ریلوے پھاٹک کے قریب اپنی سائیکل روکی۔ سائیکل کو اپنے کندھوں پر اٹھایا، ادھر اُدھر دیکھا اور ریلوے پھاٹک عبور کر کے دوسری طرف چلا گیا، وہاں وہ پھر اپنی سائیکل پر سوار ہوا اور اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہو گیا۔ گاڑی میں بیٹھی وہ انگریز خاتون یہ سب ماجرہ دیکھ رہی تھی۔ اس نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے دوسرے لوگوں کو بھی یہ سارا ماجرا دکھایا اور کہا کہ دیکھو ، اس شخص کو وقت کی کتنی قدر ہے، اس نے اپنا وقت بچانے کے لئے اتناوزن اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور دوسری طرف چلا گیا۔ یقیناً یہ ایک بہت ہی محنتی آدمی ہے جسے وقت کی اہمیت کا احساس ہے، اس نے اپنا وقت ضائع نہیں کیا اور اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر پھاٹک کراس کرکے چلا گیا۔ اگر اس قوم کے ایک عام سے آدمی کا یہ عالم ہے تو پوری قوم کیسی ہو گی۔ اتنے میں ریل گاڑی کی سیٹی کی آوازسنائی دی اور ریل گاڑی چھک چھک کرتی تیزی کے ساتھ گزر گئی۔ اس کے ساتھ ہی پھاٹک کا دروازہ کھل گیا اور تمام گاڑیاں جو پھاٹک کھلنے کے انتظار میں تھیں تیزی سے پھاٹک کراس کر کے دوسری طرف بھاگنے لگیں۔ انگریز خاتون کی گاڑی ابھی تھوڑی دور ہی گئی تھی کہ خاتون نے گاڑی روکنے کا کہا۔ اس نے گاڑی کے شیشے سے جو منظر دیکھا وہ اس کے لئے ناقابل یقین تھا۔ اس نے گاڑی کا شیشہ کھولا ، اپنی عینک اتاری اور انتہائی افسوس کے ساتھ کہا: یہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ اس نے دیکھا کہ سامنے ایک مداری تماشا دکھا رہا ہے اور اس کے ارد گرد بہت سارے لوگ اکٹھے ہو کر تماشا دیکھ رہے ہیں، اس ہجوم میں ایک آدمی اپنی سائیکل پر کھڑے ہوکر اس سارے تماشے کو دیکھ رہا تھا، یہ وہی آدمی تھا جو تھوڑی دیر پہلے، اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ریلوے پھاٹک کو کراس کر کے آیا تھا اور اب یہاں پہ کھڑا ہو کر تماشا دیکھ رہا تھا۔ ایسے بہت سارے واقعات ہم اپنی زندگی میں روزانہ دیکھتے ہیں کہ جس میں لوگ اپنی جانوں کو خواہ مخواہ خطرے میں ڈالتے ہیں، بلکہ بعض اوقات تو اپنی جان تک سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ جیسے اگر آپ کبھی سڑک پہ سفر کر رہے ہوں اور آپ کے پاس سے شوں کرتی کوئی موٹر سائیکل گزرے، اس کی رفتار اتنی تیز ہو کہ جیسے ہوا میں باتیں کر رہی ہو، تو شایدآپ سمجھیں گے کہ اس آدمی کو شاید کوئی بہت ہی ضرور کام ہے، یا اس کو کوئی ایمرجنسی ہے ، یا شاید اس کو کائی عزیز کسی مصیبت میں ہے اور وہ اڑتا ہوا اس کی مدد کو پہنچنا چاہتا ہے، حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا، بلکہ یہ سب اس آدمی کے ساتھی ہیں جو اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر، سائیکل کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر ، پھاٹک کراس کرتا ہے اور دوسری طرف جا کر تماشا دیکھنے لگتا ہے۔ عموماً سڑکوں پہ تیزی کے ساتھ موٹر سائیکل، گاڑی بھگاتے ہوئے یہ نوجوان اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں، تیزی کے ساتھ چلتی ہوئی موٹر سائیکل کا ایک پہیا ہوا میں لہراتے ہیں، موٹر سائیکل پر لیٹ جاتے ہیں، ایک طرف جھک جاتے ہیں، ایک ٹانگ موٹر سائیکل پہ اور دوسری ٹانگ سڑک پہ رگڑتے ہوئے جاتے ہیں، اپنی موٹر سائیکل کو سانپ کی طرح دائیں بائیں لہراتے ہوئے جاتے ہیں۔ نہ سر پر ہیلمٹ اور نہ دونوں اطراف کے شیشے۔ بس اندھا دھند موت کیجانب بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ ان تمام باتوں کا کوئی مقصد نہیں ہوتا نہ انہوں نے وقت بچانا ہوتا ہے اور نہ ہی انہوں نے کسی کی مدد کے لئے پہنچنا ہوتا ہے۔ یہ سب کے سب نوجوان محض دکھاوے اور کرتب کے لئے اپنی جان کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہوتے ہیں۔ نہ صرف اپنی جان بلکہ دوسروں کی جان کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات میں رونما ہونے والے حادثات میں زندہ بچنے کے امکانات بہت ہی کم ہوتے ہیں اور حادثے کا شکار ہونے والے اکثر افراد اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔ اور جو ان حادثات میں زندہ بچ جاتے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح کی جسمانی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسے نوجوانوں کی ہوتی ہے جن کی عمریں 15سے24سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے لندن کے ایک تحقیقاتی ادارے نے 10 سال سے لے کر24سال تک کے نوبالغوں اور نوجوانوں سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ یہ تحقیق سال2013میں10سال سے لے کر24سال تک کی عمر کے نو بالغوں اور نوجوانوں کی واقع ہونیوالی اموات کی وجوہات کو بنیاد بنا کر کی گئی ہیں۔ اعداو شمار کے مطابق پاکستان میں 15سال سے لے کر24سال تک کی عمر کے نوجوانوں کی ہلاکت کی سب سے بڑی وجہ ٹریفک حادثات ہیں، جوہمارے نوجوانوں کی غیر ذمہ داری اور بے احتیاطی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ حالانکہ یہ وہی نوجوان ہیں جن کے بارے میں قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ نوجوان پاکستان کا فخر ہیں، یہ ہمارا مستقبل ہیں۔ لیکن ایسے نوجوان جن کو نہ ہی اپنا احساس ہو اور نہ ہی دوسروں کا تو ایسے نوجوانوں پہ کون فخر کرے گا، جن کو اپنے مستقبل کا ہوش نہیں، وہ ملک کے مستقبل کی فکرکیا کریں گے۔ ایک طرف وہ نوجوان ہیں جو اسی عمر میں قوم کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں اور دوسری طرف یہ نوجوان ہیں جو بغیر کسی مقصد کے اپنی جانوں کو ضائع کر دیتے ہیں۔ یقیناً اس میں ہم سب کا قصور ہے۔ ہمیں ان کے رویوں پہ توجہ کرنی چاہئے ، اور ان کی عمر کے مطابق تعلیم اور تربیت کا بندوبست کرنا چاہئے۔ تعلیمی اداروں میں انسانوں کو مہذب شہری بننے کی تعلیم بھی دی جانی چاہئے اور ساتھ ہی ساتھ سڑک پہ محفوظ سفر کی تعلیم بھی دی جانی چاہئے کہ ہم کیسے دوران سفر اپنے آپ کو اور دوسروں کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ ساتھ ہی والدین کی بھی یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو اس وقت تک سڑک پہ ڈرائیونگ کرنے کی اجازت نہ دیں جب تک کہ انکے رویوں میں تبدیلی نہیں آ جاتی اور وہ ایک ذمہ دار شہری نہیں بن جاتے۔ اس کے علاوہ ٹریفک قوانین پر بھی سختی سے عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں