
انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ اسلام و راولپنڈی ڈویژن کے زیر اہتمام جامع مسجد ام کلثوم نیوی روڈ عائشہ ٹاؤن روات اسلام آباد میں آل پارٹیز سیمینار منعقد ہوا جس میں تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے نمائندہ افراد نے شرکت کی۔
سیمینار کا انعقاد سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے تناظر میں تھا جس میں شرکاء سپریم کورٹ کے فیصلے کو غیر شرعی و غیر آئینی قرار دیا اور کہا کہ اس فیصلے میں آئین و قانون کی دھجیاں بکھیری گئی ہیں
اس فیصلہ میں قادیانیوں کو قرآن و سنت اور آئین پاکستان کے خلاف اسلام اور پیغمبر اسلام ؐ کی نعوذ باللہ اہانت کرنے کی آزادی دی گئی ہے جسے اہل ایمان کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے
۔ملکی ادارے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ چاردیواری کے اندر بھی جرم و بغاوت کرنا سرعام جرم کرنے کے مترادف ہے سپریم کورٹ کے ااس فیصلے سے پوری امت مسلمہ کے جذبات سخت مجروح ہوئے ہیں
گزشتہ چند روز سے امریکہ و دیگر قوتوں کی جانب سے قادیانیوں کے حوالے سے سہولت کاری کے بیانات آرہے ہیں اس کے وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے بیان آنے کے بعد ایسے ہی فیصلے کی امید تھی آج کا نمائندہ اجلاس فلسطین کی جدوجہد آزادی کی مکمل حمایت کرتا ہے ان تمام پروگراموں کی تائید کرتاہے
جو فلسطین کے حقوق کی تحفظ کے لیے ہے نیز یہودی اور قادیانی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کرتا ہے۔ اس موقع پر راقم الحروف نے بھی اس مجلس میں سیو غزہ کمپین کی طرف سے شرکت کی۔
راقم نے اپنی جو دو تجاویز پیش کی ان میں ایک یہ تھی کہ روات کی سطح پر کانفرنس کا انعقاد کیا جائے جس کا نام ”تحفظ ختم نبوت اور تحفظ مسجد اقصی کانفرنس“ ہو۔ دوسری تجویز یہ پیش کی
کہ جیسے جماعت اسلام کا دھرنا شروع ہے اگر ان کے ساتھ ملاقات کر کے دو شقیں یہ بھی شامل کروا لی جائیں ایک تحفظ ختم نبوت اور دوسرا تحفظ مسجد اقصی یہ دونوں شقیں بھی اگر اس دھرنے میں شامل ہو جائیں
تو الحمدللہ تمام علماء اور عوام کی مزید ہمدردیاں اس دھرنے کے ساتھ وابستہ ہو جائیں گی۔جمعیت علمائے اسلام کے نمائندہ نے تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ووٹ کی
طاقت ضرور بنائیں اور اپنے نمائندے اسمبلی میں بھیجیں تاکہ دین اسلام کے حوالے کوئی بھی شخص ایسی بات نہ کہہ سکے جسے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے
اور اپنا احتجاج ہر فورم پر بھرپور طریقے سے ریکارڈ کرایا و جا ئے۔ جما
عت اسلامی کے نمائندہ قاضی مسعود نے اپنی تجویز میں کہا اتحاد ضروری ہے ہمیں سیاسی جماعتوں سے بالا ہو کر بطور مسلم اتحاد و اتفاق کا عملی نمونہ پیش کرنا ہو گا۔
مرکزی سیرت کمیٹی کے مولانا فاروق جلالی نے فلسطین کے حوالے سے اتحاد نظر آیا ہے۔ انھوں نے موجودہ فیصلے کے تناظر میں کہا وکلاء کی طرف سے قانونی کارروائی عوامی آگاہی عمل میں لائی جائے
تاکہ عوام کے سوالات کا جواب وکلاء دیں۔جمیعت اہلسنت حلقہ رات کے مولانا فہیم نے ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا ابومسلم خولانی جب اسود عنسی کے دربار میں حاضر ہوئے
تو اسود عنسی نے انھیں آگ میں جلانے کا حکم دیا لیکن آگ انھیں نہ جلاسکی،جب وہ مدینہ پہنچے تو سید نا عمر فاروق ؓ نے اپنے اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے درمیان بٹھایا
اور فرمایا کہ اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمیں ایسے شخص سے ملایا جس کے سیدنا ابراہیم ؑ جیسا معاملہ فرمایا۔مولانا فہیم نے تجویز پیش کی ایک کانفرنس تحفظ ختم نبوت و تحفظ مسجد اقصیٰ منعقد ہونی چاہیے
،مجلس علمائے دین المسالک ہم آہنگی عابد ابرار نے کہا ہمارے بڑے کیوں خاموش ہیں انٹرنیشنل اکابرین۔تاریخ جب ہمارے بڑوں کو یاد کرے تو خادم حسین رضوی کو بھی نہیں بھولے گی۔چیف جسٹس کو اگلے فیصلے میں شامل نہ کیا جائے اور ہمارے عدالتیں جب فیصلہ کریں تو ضرور شریعت کونسل کی کورٹ کے ساتھ مل کر فیصلہ کریں۔
انجمن شہریان علماء و مشائخ ونگ کے نمائندہ نے کہا ہم اپنے اکابرین میں اعظم طارق شہید کی قربانی کو کبھی فراموش نہ کیا جائے عدالت عالیہ کو خط لکھا جائے
ہم صرف قربانی دینا بھول گئے اگر ہم قربانی کا جذبہ پیدا کریں تو ان کی جرات نہیں کہ یہ ایسے فیصلے دیں۔سنی کونسل کے مولانا نعمان نے کہا کہ قادیانیت کسی صورت قابل قبول نہیں۔تحریک خدام اہلسنت و الجماعت کے نمائندہ نے کہا ہمارے بڑوں نے بہت قربانیاں دی ہیں اس کے لیے علامہ انور کشمیری نے خود مقدمات کی پیروی کی باوجود بیماری کے۔علامہ عطاء اللہ شاہ بخاری کی تقریرسے متاثر ہو کر
غازی علم الدین شہید ؒ نے گستاخ شاتم کو قتل کیا اور سینوں کو ٹھنڈک پہنچائی۔لیگل ایڈوائزر نے بتایا کہ جب تک ناموس رسالت پر جان نہ قربان کی جائے ہمارا ایمان نا مکمل ہے
ساری ڈرامے بازی عدالتوں کی طرف سے جاری تھی ہمیں معلوم تھا لیکن ہم نے خاموش اختیار کی۔راولپنڈی اور اسلام آباد کے پریس کلبز کے سامنے احتجاج ریکارڈ کرائیں
۔سیاسی ومذہبی جماعتوں کے بڑوں کو بلائیں تاکہ وہ خاموشی چھوڑیں۔قادیانیوں نے کوئی قربانی بھی نہ دی لیکن ان کے حق میں فیصلہ ہماری سیاسی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے۔
سیمینار کے مہمان خصوصی سید ظہیر حسین شاہ نے فرمایا کہ یہ قادیانی لبادہ اوڑھ کر ہمارے پاس آتے ہیں بھٹودور میں کافر۔ضیاء دور میں مہر ثبت ہوئی لیکن اس کے بعد خاموشی ہو گئی
۔مولانا محمد ممتاز ربانی نے کہا کہ حالت کفر میں بھی اگر کسی نے ختم نبور پر پہرہ دیا ہے تو رب العزت نے اسے بھی ضائع نہیں کیا ہے 1953,1974,1985میں تحریکیں جو اٹھیں ان میں قیادت فرنٹ پر تھی
جس میں تیس جماعتوں کے ذمہ داران شریک ہوئے۔یہ اجلاس اس فیصلے کو یکسر مسترد کرتے ہیں اہل ایمان کسی صورت یہ برداشت نہیں کریں گے۔