پچھلے دنوں ایک خبر گردش میں تھی کہ لاہور میں فوڈ انسپکٹر نے مختلف چھوٹے بڑے ہوٹلوں پر چھاپے مارے ہوٹلوں کے کچن کی صفائی کا جائزہ لیا اسٹور روم میں پڑی مختلف اشیاء کا جائزہ لیاجس سے یہ بات سامنے آئی کہ سو فیصدہوٹل مالکان خطرے میں پڑ گئے زیادہ تر ہوٹلوں میں صفائی کا فقدان ہونے کے باعث انہیں سیل کر دیا گیا یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح میڈیا میں پھیل گئی سیل ہونے والے ہوٹلوں میں بڑے بڑے برانڈ کے نام آئے جن میں KFC‘ڈیرہ تاج محل‘اٹیلین پیزہ وغیرا شامل ہیں ۔بات یہاں آکہ رکی نہیں بلکہ لاہور کی کاروایوں کے دیکھا دیکھی مختلف علاقوں میں موجود غیر فعل فوڈ انسپکٹر بھی ہوش میں آگئے تحصیل کلر سیداں میں بھی ایسی کاروائی دیکھنے میں آئی جس میں مختلف بیکریوں اور ہوٹلوں پر اچانک کاروائی کی گئی اور خاطر خواہ نتائج بھی سامنے آئے کلر سیداں کی معروف بیکری راحت بیکرز میں صفائی کے انتظامات نہ ہونے پر جرمانہ کیا گیا ہے کئی چھوٹی بیکریوں کو سیل کیا گیا جن میں یونیورسل بیکری وغیرہ شامل ہیں ۔اس نوعیت کی کچھ کاروائیاں چوک پنڈوڑی اور تحصیل کہوٹہ میں بھی دیکھنے میں آئی خدا کا شکر ہے کہ فوڈ اتھارٹی کو بھی ہوش آگئے ورنہ ہوٹلوں اور بیکریوں والے ہم سب کو آہستہ آہستہ زہر کھلا رہے تھے اور ہم کھائے جا رہے تھے مگر المیہ یہ ہے کہ جب حکومت غلطیاں کرتی ہے جب حکومت کی طرف سے عوام کو مسئلہ درپیش آتا ہے تو کیا میڈیا کیا اخبار ہر طرف وزیروں مشیروں کی سختی آجاتی ہے ہر طرف ہنگامے ہر طرف احتجاج بات لانگ مارچ تک آجاتی ہے مگر یہ قوم یہ کیوں نہیں سوچتی کہ حکومت صرف قانون بناتی ہے حکومت صرف ادارے تشکیل دیتی ہے حکومت کے ان قانون اور ادروں کو چلانے والے ہم عوام ہیں عوام میں سے ہی سب سے زیادہ پڑھے لکھے قابل لوگ فوڈ انسپکٹر جیسے مختلف عہدوں پر فائز ہوتے ہیں پھر کیوں عوام ہی کے لوگ وام ہی کو دھوکہ دیتے ہیں اگر حکومت میں جاہل لوگ بیٹھ کر قانون بنا رہے ہیں تو ہمیں ان سے شکوہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر پڑھے لکھے اہل علم لوگ اداروں کا یہ حشر کر رہے ہیں تو نا اہل اور کم تعلیم یافتہ لوگوں سے ہمیں زیادہ توقع نہیں رکھنی چاہیے۔کالی بھیڑیں صرف حکومت کے ایوانوں میں ہی نہیں بلکہ ہمارے ارد گرد بھی موجود ہیں اور بڑی ہوشیاری سے اپنا کام انجام دے رہی ہیں نہ تو ان کو حکومت پوچھتی ہے نہ یہ حکومت کو دونوں مافیا مل کر ایک عام آدمی کی زندگی کو مشکل ترین کرتے جا رہے ہیں اب فوڈ سے متعلقہ ادارے کو ہی لے لیں یہ ادرہ 2015میں تو نہیں بنا یہ ادارہ کئی برسوں سے قائم ہے اور کئی برسوں سے اس کے عہدیدار تنخواہیں لے رہے ہیں مگر پھر بھی چند برس پہلے متعارف کئے گئے ہوٹلوں اور بیکریوں میں ناقص ترین مال سے مختلف اشیاء بنتی رہی اور ہم آنکھیں بند کر کے یہ زہر کھاتے رہے اور کھاتے جا رہے ہیں ہم کیوں اپنے ارد گرد کے حالات کو جانتے ہوئے بھی آنکھیں موند لیتے ہیں ہم کیوں نہیں بولتے ان کا لی بھیڑوں کے خلاف کیوں ہمیں دیمک کی طرح اندر ہی اندر کھا رہی ہیں ۔اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور ان لوگوں کی نشاندہی کریں جو آپ ہی کے معاشرے میں رہ کر آپ جیسے رنگ و لباس میں آپ ہی کے لہجہ و انداز میں آپ ہی کو کاٹ رہے ہیں خاموشی سے آپ کو اندرونی اور بیرونی دونوں اطراف سے تباہ کر رہے ہیں سوال ہمارے آج کا نہیں سوال ہمارے کل کا ہے سوال ہماری صحت و جان کا نہیں سوال ہمارے آنے والے کل ہمارے مستقبل ہمارے بچوں کی صحت و جان ہے ،اگر آپ اہل علاقہ اپنے ارد گرد بیکروں یا ہوٹلوں کی صفائی وغیرہ سے مطمئن نہیں ہیں تو آواز اٹھائیے تعلیم یافتہ لوگوں سے میری گزارش ہے اپنے اہل علم ہونے کا ثبوت دیجئے اپنے علاقے‘ اپنی گلی‘ اپنے بازار ‘اپنے شہر میں موجود بیکری ‘ہوٹل اور جنرل سٹور کا وقتا فوقتا جائزہ لیتے رہیں اور کسی بھی شک و شبہ کی صورت میں متعلقہ ادارے کو شکائیت جمع کرائیں ‘حتجاج کریں خاموشی ہمیں بہت مہنگی پڑچکی ہے اب خاموش رہنے سے کچھ حاصل نہیں اللہ مجھے اور آپ سب کو ہم سب ہی محفوظ رکھے آمین{jcomments on}
120