حضرت سلیمان الاعمش فرماتے ہیں کہ میں کعبتہ اللہ کا طواف کر رہا تھا کہ ناگاہ میں نے ایک نقاب پوش شخص کو غلاف کعبہ سے چمٹے ہوئے دیکھا جو یوں دعا کر رہا تھا۔ترجمہ( اے اللہ مجھے بخش دے لیکن مجھے معلوم ہے کہ تو مجھے نہیں بخشے گا)۔حضرت سلیمان فرماتے ہیں کہ میں اس شخص کی یہ دعا سن کر اس کے قریب گیا اور کہا کہ اے اجنبی تو یہ کس طرح دعا کر رہا ہے ۔یہاں تو بڑے بڑے گناہ گار بخش دیے جاتے ہیں ۔وہ بولا تو کون ہے؟ میں نے کہا میں سلیمان الاعمش ہوں ۔وہ کہنے لگا اچھا مجھے خانہ کعبہ سے ذرا باہر لے چلو میں تم پر ساری حقیقت کھول دوں گا۔سلیمان اسے خانہ کعبہ سے باہر لے جاتے ہیں اور فرماتے ہیں کیا ہے تیر ا گناہ؟ وہ بولا اے سلیمان بس یہ سمجھ لے کہ میرا گناہ ہر قسم کے گناہوں سے بڑا ہے ۔ سلیمان نے کہا بھائی گھبراؤ نہیں ۔اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو۔مجھے اپنا گناہ بتاکہ میں تیرے لیے دعا کروں ۔ اس ملعون نے یوں داستان شروع کی۔اے سلیمان 61ھ میں جب امام حسینؓ کو بے دردی سے شہید کیا گیا اور آپ کا سر یزید کے دربار میں پیش کیا گیا تو اس نے سر امام سے نہایت بے ادبی کی۔ پھر اس نے حکم دیا کہ اس سر کو سبز کپڑے کے خیمہ میں رکھا جائے اور اس کی حفاظت کیلئے ستر آدمی مقررکیے جائیں ۔اے سلیمان ان ستر آدمیوں میں ایک بد نصیب میں بھی تھا ہم سارا دن سر امامؓ کی حفاظت کرتے رہے جب رات آئی تو ہم لوگ شراب و کباب میں مست تھے ۔میرے دیگر ساتھی تو سو گئے لیکن میں جاگتا رہا۔ جونہی نصف شب کا وقت ہوا تو میں نے دیکھاکہ ابر سیاہ کی مانند ایک چیز آسمان سے اتر کر میری طرف لپک آرہی ہے اور پروں کی آواز کے مشابہ آواز آرہی ہے ۔ میں جھٹ زمین سے لپٹ گیا ۔تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ تین نفوس قدسیہ ہیں جن کے ہاتھوں میں فرش اور کرسیاں ہیں ۔انہوں نے فرش بچھادیا اور کرسیاں لگا دیں۔ پھرو ہ تینوں نفوس قدسیہ سر امامؓ کے پاس گئے اور زیارت کرنے لگے۔میرے سرہانے سبز جامہ اور سفید عمامہ پہنے ہوئے ایک شخص کھڑا تھا میں نے اس سے پوچھا کہ یہ تینوں حضرات کون ہیں ؟ اس نے بتایا کہ یہ حضرت جبرائیل ‘ میکائیل اور اسرافیل ہیں۔جونہی فرش بچھ گیا اور کرسیاں لگ چکیں تو جبریل نے آوازدی(یا اَباَ بَشر)اے آدم ؑ تشریف لائیے۔ حضرت آدم ؑ بمع حضرت شیث و ادریس آئے او ر سر امام کے قریب آکر کہنے لگے اے بقیتہ الصالحین تم پر ہمارا سلام ہو۔تم نے اچھی زندگی بسر کی اور بری طرح سے قتل ہوئے ۔خدا تمہارے قاتلوں کو نہ بخشے اور وادی جہنم ’’ویل ‘‘ نصیب کرے ۔ پھریہ تینوں کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔اے سلیمان ا س کے بعد جبریل نے پکارا ۔اے نوح ؑ تشریف لے آئیے ۔حضرت نوح ؑ ایک اسام نامی شخص سمیت آئے اورحضرت آدم ؑ کی طرح سلام کرنے کے بعد نہایت رنجیدہ ایک کر سی پر بیٹھ گئے۔اسی طرح باری باری جبریل ؑ کے پکارنے پر حضرت ابراہیم ؑ ‘ حضرت موسیٰ ؑ ‘ حضرت شمعون ؑ ‘ حضرت عیسیٰ ؑ بھی آئے اور سلام کرنے کے بعد کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔اے سلیمان اس کے بعد جبریل نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ تشریف لے آئیں۔حضرت محمد ﷺصف ملائکہ ‘ حضرت علی المرتضیٰؓ ‘حضرت فاطمتہ الزہرا ؓ ‘ حضرت جعفر طیار ‘ حضر ت امیر حمزہ اور حضرت امام حسنؓ سمیت تشریف لے آئے ۔ سب سے پہلے حضور ﷺ نے سر امام ہمام کو اٹھاکر سینے سے لگایا اور آنکھوں نے موتی لٹانے شروع کر دیے ۔پھر غم نصیب ماں فاطمتہ الزہرا نے سر امام کو گود لیا اور برستی آنکھوں سے چومنے لگیں ۔ اسی طرح حضرت جعفر طیار‘ حضرت حسنؓ اور امیر حمزہ نے بھی سر مبارک کو چوما اور اشک بہائے۔اے سلیمان تمام اراکین جمع تھے ۔صدر جلسہ سرور دو عالم ﷺ تشریف لا چکے تھے ۔سب سے پہلے حضرت آدم ؑ اٹھے اور فرمانے لگے ’’ اے نبی آخر الزماں آپ کو شہادت حسین کے بدلے اللہ تعالیٰ اجر عظیم عطا فرمائے اور اس کے قاتلوں کو جہنم میں ڈالے ‘‘۔اس کے بعد تمام انبیاء کرام نے امام حسینؓ کی تعزیت ادا کی۔حضور ﷺ نے جوابی تقریر میں شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایااے گروہ انبیاء گواہ رہنا کہ میری امت نے میرے بعد میرے نواسے پر ظلم ڈھائے اور کس بے دردی سے اسے شہید کیا ۔جب فرشتوں نے یہ رنجیدہ منظر دیکھا تو بارگاہ رسالت میں باری باری حاضر ہو کر یزیدیوں کو ہلاک کرنے کی اجازت چاہی ۔مگر آپ ﷺ نے سب کو منع فرمادیا۔ اور فرمایا انہیں جانے دو قیامت کے دن دیکھا جائے گا۔اے سلیمان اسی دوران میں حضرت حسنؓ کی نظر میرے ان ساتھیوں پر پڑی جو سورہے تھے ۔عرض کی نانا جان کم ازکم ان لعینوں کو قتل کر دینا چاہیے۔اسی اثناء میں جبریل حاضر ہوئے اور عرض کی؛ حضور یہ فرشتے آئے ہیں اور ہمیں حکم ملا ہے کہ سر حسین کی حفاظت کرنے والوں کوقتل کر دیا جائے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا’’اے فرشتو جب حکم ؒ خداوندی ہے تو ان لعینوں کو قتل کرو ۔ وہ اجنبی کہتا ہے کہ اے سلیمان تھوڑی دیر کے بعد میں نے اپنے سب ساتھیوں کو مردہ پایاپھر جونہی ایک فرشتہ میری طرف لپکا تو میں نے حضور ﷺ کو پکارا اور ان سے رحم کی اپیل کی ۔ آپ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو پھر آ پ ؐ میرے پاس آئے اور فرمانے لگے کہ کیا تو بھی ان ستر لعینوں میں سے ہے۔ میں نے کہا ہاں آپ ؐ نے میری پشت پر ہاتھ مارا اور منہ پر ہاتھ پھیر کر فرمایا کہ خد ا تجھے کبھی نہ بخشے اور ہڈیاں آگ سے جلائے۔ اے سلیمان میرا چہرہ دیکھ یہ اسی دن سے خنزیر جیسا ہوگیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں چہرے پر نقاب پہنے رکھتاہوں۔ سلیمان فرماتے ہیں کہ جونہی میں نے داستان سنی تو میں یہ کہتے ہوئے اس سے دور ہوگیا کہ اے شیطان نما ابلیس تو نے واقعی بہت بڑا گناہ کیا ہے کہیں تیری وجہ سے میں بھی عذاب الہی کا شکار نہ ہوجاؤں۔(نور الابصار ۔روضتہ الشہداء)’’ کتاب شہنشاہ کربلا سے اقتباس‘‘{jcomments on}
128