اسلام میں اخلاقی اقدارکی پاسداری اور ان پر سختی سے عمل پیرا ہونے پر بہت زور دیا گیا ہے ان اقدار میں سے ایک “مہمان نوازی” بھی ہے۔ جس کی یادگار مثالیں حضورِ پاک ﷺ اور ان کے رفقاء کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کے موقعہ پر رقم کی گئیں۔خوش قسمتی سے ہماری قوم حسنِ اخلاق کی اس صفت سے مالا مال ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ بیرونِ ممالک سے آنے والے وفود اور شخصیات ہمیشہ سے پاکستانی مہمان نوازی کے معترف رہے ہیں یہ قوم اس کا عملی مظاہرہ گزشتہ تیس برس سے افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کی صورت میں کر رہی ہے۔ ان کی پاکستان آمد کا سلسلہ 80 کی دہائی میں افغانستان پر روسی فوجی یلغار کے نتیجے میں شروع ہوا گو کہ روس کو اس جنگ میں منہ کی کھانی پڑی اور وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوا۔ مگر اس کے باوجود وہاں سیاسی استحکام کوکئی دیگر وجوہ کی بنا پر استحکام نہ مل سکا۔کچھ وہاں بسنے والے قبائل کے باہمی اختلافات اور کبھی بیرونی طاقتوں کی مداخلت اس ملک کے سیاسی استحکام کے آڑے آتے رہے۔ جس سے افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کا سلسلہ بغیر کسی وقفے کے جاری رہا۔ پاکستان نے کبھی بھی ان کی آمد پر ناراضگی یا نا پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ ہمیشہ انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا اور انہیں وہ عزت و احترام دیا جو انہیں کبھی اپنے ملک میں بھی نصیب نہیں ہوا۔ ہماری بیمار اور تباہ حال معیشت یہ بار گراں اٹھانے کے قابل نہ تھی۔ مگر اس کے باوجود اتنے طویل عرصے سے چالیس لاکھ مہاجرین کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ان کی آمد سے زندگی کا ہر شعبہ مزید دباؤ میں آگیا۔ ان سب حقائق کے باوجود پاکستان ان کی مہمان نوازی سے دست بردار ہوا اور نہ ہی ان کی آمد پر کبھی پابندی عائد کی۔جس کا جب دل چاہتا اپنے وطن چلا جاتا اور جب چاہتا واپس آجاتا۔ اس سے پیشتر کئی بار اقوامِ متحدہ کے اشتراک سے انہیں وطن واپسی اور وہاں آبادکاری کے لئے مالی معاونت کی گئی اس امداد کو ہضم کرنے کی غرض سے کئی لوگ واپس چلے جاتے مگردو ماہ بعد پھر واپس آجاتے اس پر بھی ہماری حکومت خاموش رہی ۔ ایران اور دیگر ممالک میں افغان مہاجرین کو کیمپوں تک ہی محدود رکھا گیا مگر یہاں قیام کے لئے جگہ کا انتخاب ان کی اپنی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا۔ اندرون ملک نقل و حرکت پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ جو جب اور جہاں چاہے جا سکتا ہے اور اپنا کاروبار بھی کر سکتا ہے اب تو نوبت یہاں آن پہنچی ہے کہ انہوں نے یہاں اربوں اور کروڑو ں کے اثاثے بنا لئے ہیں اور رشوت مافیا کی ملی بھگت سے پاکستانی پاسپورٹ اورشناختی کارڈ تک حاصل کر لئے ہیں۔لیکن اس کا صلہ اور بدلہ میں افغان حکومت اور مہاجرین نے سب سے پہلے یہاں کلاشنکوف کلچر متعارف کرایا جس کے بطن سے ایسے ایسے سنگین نوعیت کے جرائم نے جنم لیا کہ جنہیں بیان کرنے سے انسانیت کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔دہشت گرد تنظیموں کے لئے فنڈز اکٹھے کرنے کی غرض سے بڑے بڑے عہدیداران اور شخصیات کا اغواء اور بھاری تاوان کی وصولی، پاکستان دشمن قوتوں کی ایماء پر عبادت گاہوں ، تعلیمی اداروں، دفاعی تنصیبات، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دفاتر ، فوجی جوانوں، پولیس ملازمین، نیم فوجی دستوں کے اہل کاروں کو
ٹارگٹ کیا گیا۔ملک میں غیر یقینی خوف و ہراس اور ڈر جیسی کیفیت پیدا ہوئی اور ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پرلا کھڑا کر دیا گیا۔یہاں تک کہ ملکی سا لمیت خطرے میں پڑ گئی۔ان دہشت گردکارروائیوں میں ان کی معاونت مقامی دہشت گردتنظیمیں بھی کرتی رہیں۔جب بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ رو نما ہوا تو بالآخر اس کی کڑیاں افغان Based کسی دہشت گرد تنظیم سے ہی ملیں۔افغان حکومت اور عوام نے پاکستان سے ہر قسم کی مراعات اور سہولیات حاصل کیں۔ مگر اندرون خانہ ان کی تمام تر ہمدردیاں انڈیا سے وابستہ رہیں۔ یہ افغانستان ہی ہے جس نے انڈیا کو پاکستان سے ملتی بارڈر کے ساتھ ساتھ 18 قونصلیٹ آفس کھولنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ وہ یہاں کیسی اور کونسی ثقافتی اور سفارتی سر گرمیو ں کو فروغ دے رہا ہے ۔یہ سب RAW کے اڈے ہیں جہاں سے وہ پاکستان دشمن سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کر کے یہاں دہشت گرد کارروائیاں کرواتا ہے ۔ جب گوادر پورٹ کی upgradation کا معاملہ سامنے آیا تو افغان حکومت انڈیا اور ایران کی جھولی میں جا بیٹھی۔ طورخم بارڈر سے روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 24 ہزار افغانی پاکستان میں بغیر کسی سکیورٹی چیک اور مطلوبہ سفری دستاویزات کے داخل ہوتے تھے۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد بھی مہاجرین کا لبادہ اوڑھے پاکستان میں داخل ہوتے تھے۔ اور جب حکومت پاکستان نے اس داخلے کو ایک ضابطے کے تحت لانے کی غرض سے وہاں ایک گیٹ کی تعمیر شروع کی تو اس عمل کو روکنے کے لئے افغان مسلح دستوں نے وہاں ڈیوٹی پر مامور ہمارے سکیورٹی اہل کاروں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ بجائے اس کے کہ افغان حکومت اس واقعے پر معذرت کرے ان کے چیف ایگزیکٹو صاحب فرماتے ہیں کہ ” ہمیں کمزور نہ سمجھا جائے” ۔ RAW کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کے پکڑے جانے کے بعد اس کے دیگر ساتھیوں کو کس نے پناہ دی۔ مفادات اور مراعات حاصل کرنے کے لئے پاکستان کے آگے جھولی پھیلانا اور دوستی اور ہمدردیاں اس کے دشمنوں سے یہ دوغلا پن اور دوہرا معیار اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ پاکستان نے ہمسائیگی او رہم مذہب ہونے کے رشتے عائد ذمہ داریوں کو بطریقہء احسن سر انجام دیا اور افغان حکومت او رمہاجرین نے اس کا صلہ کیا دیا وہ ذرا اپنے دامن میں جھانکیں۔ کیا ان حقائق کے باوجود افغان مہاجرین کا یہاں مزید قیام کا کوئی جواز باقی رہ جاتا ہے ، ہرگز ہرگز نہیں۔ زخموں سے نڈھال قوم کو مزید آزمائش میں مت ڈالیں کیونکہ اب اس میں مزید غم جھیلنے کی سکت نہیں۔ یہ جب تک یہاں رہیں گے پاکستان عدمِ استحکام کا ہی شکار رہے گا۔ لہذا اربابِ اختیار اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں اور ایک حتمی فیصلہ کرکے ان کی وطن واپسی کو یقینی بنائیں۔ یہی پاکستان کے حق میں ہے۔{jcomments on}
115