چار جون 2024 بروز منگل کو 26 روز سے جاری دھرنے میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ یہ دھرنا سیو غزہ کے نام سے شیر پاکستان جناب سینٹر مشتاق احمد خان صاحب کے زیر قیادت پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کے بالکل سامنے ڈی چوک میں مسلسل 24 گھنٹے جاری ہے۔ دراصل اس کا آغاز محترمہ حمیرہ طیبہ صاحبہ نے کیا تھا جو کہ محترم سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب کی اہلیہ محترمہ ہیں۔ وہ ہر ہفتے اپنی چند دوستوں کے ساتھ مل کے اپنے چند کولیگز کے ساتھ مل کے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے فلسطین کے حق میں مظاہرہ کیا کرتی تھیں۔ بعد میں اسی مظاہرے نے دھرنے کی شکل اختیار کر لی۔ اس دھرنے میں شرکت کرنے کے بعد ایسے ایمان افروز مناظر دیکھنے کو ملے کہ جس نے قرون اولی کے مسلمانوں کی یادوں کو تازہ کر دیا۔ جب راقم الحروف دھرنے میں داخل ہوا تو تقریبا تمام لوگ سوئے ہوئے تھے کیونکہ میں فجر کی نماز پڑھتے ہی گھر سے روانہ ہو چکا تھا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ رات کو لیٹ سوتے ہیں تو اس وجہ سے صبح فجر کی نماز پڑھ کے تھوڑی دیر آرام کرتے ہیں۔ جب میں وہاں پہنچا تو دھرنے پر موجود جو بھائی پہرہ دے رہے تھے انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا۔ اس دوران محترم جناب محمد صائم بھائی تشریف لے آئے۔ تعارف کرنے پر پتہ چلا کہ یہ بھی دھرنے کے ذمہ داران میں سے ہیں۔ صائم بھائی نے بتایا کہ ان کا تعلق روات ٹی چوک سے ہے جب انہیں پتہ چلا کہ بندہ عاجز بھی روات سے آیا ہے تو بہت خوش ہوئے۔
جب انہیں یہ پتہ چلا کہ راقم الحروف کا تعلق مسجد سے ہے اور مسجد کی خدمت پر مامور ہے تو انہوں نے دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرنے کے لیے دعوت دی۔ دھرنا مسلسل جاری ہے اور میں اپنے قارئین کرام سے یہ گزارش کروں گا کہ وہ اس دھرنے میں ضرور شریک ہوں۔ اگر آپ دھرنے میں شریک ہوں تو سیناریو کچھ اس طرح بنتا ہے کہ مقرر جب تقریر کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اسے بالکل سامنے پارلیمنٹ کی عمارت نظر آتی ہے۔ راقم الحروف نے اللہ کا نام لے کے اور اللہ کی حمد و ثنا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر درود پڑھنے کے بعد اپنے خطاب کا آغاز کیا۔ قران پاک کی سورت الصف سے آیت نمبر 10، 11، 12، پڑھ کر سنائیں اور ترجمہ و تفسیر پیش کیا۔ ان آیات بینات میں اللہ رب العزت نے واضح طور پر مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا ہے۔ ان ایات کریمات میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں کہ (ترجمہ): ” اے وہ لوگو جو ایمان لے کر آئے ہو کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت نہ بتاؤں جو تمہیں کل قیامت والے دن دردناک عذاب سے بچا لے۔
تم اللہ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے کر آؤ اور اپنی جانوں اور اپنے مالوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جان لو۔ اگر تم یہ کام کر لو گے تو اس کے بعد میں تمہارے تمام گناہوں کو معاف کر دوں گا، اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کروں گا کہ جس کے نیچے سے نہریں بہ رہی ہیں، اور تمہیں ایسی خوبصورت اور پاکیزہ ترین رہائشوں کے اندر داخل کر دوں گا جو جنات عدن میں موجود ہیں، اور یقینا یہ بہت عظیم الشان کامیابی ہے۔ اور دوسری چیز جو میں تمہیں عطا کروں گا اور دنیاوی لحاظ سے اور یہ تمہیں بڑی محبوب ہے کہ تمہارے لیے فتوحات کے دروازے کھول دوں گا، اور اپنی طرف سے مدد و نصرت تمہارے شامل حال کر دوں گا ” سبحان اللہ! سبحان اللہ! میں قربان جاؤں اپنے رب کی ذات پر اور اس کے بابرکت کلام پر کہ کتنے خوبصورت اور واضح الفاظ میں اللہ رب العزت اپنے وعدوں کا یقین دلا رہا ہے۔ لیکن نہ جانے کیا وجہ ہے کہ دنیا کی محبت نے ہماری انکھوں پر ایسی پٹی باندھی ہے کہ ہمیں اللہ کا کلام نہ سنائی دیتا ہے اور نہ ہی دکھائی دیتا ہے اور یقینا سچ فرمایا تھا میرے نبی پاک جناب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کہ ایک وقت آئے گا کہ کافر قومیں تم پر اس طریقے سے ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکا دسترخوان پر ٹوٹ پڑتا ہے۔
تو صحابہ نے عرض کیا کہ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم تعداد میں کم ہوں گے؟ فرمایا نہیں تمہاری تعداد بہت زیادہ ہوگی، اتنی زیادہ کہ تم سمندر کی جھاگ کے برابر ہو گئے لیکن تمہارے اندر ایک بیماری پیدا ہو جائے گی اور اس بیماری کا نام وہن ہے۔ پوچھا گیا وہن کیا ہے؟؟؟ فرمایا کہ حب الدنیا و کراہیۃ الموت، کہ دنیا کی زندگی تمہیں محبوب ہو جائے گی اور موت سے تم نفرت کرنے لگ پڑو گے۔ اور بے شک دیکھ لیں کہ اج ہماری کیا حالت ہے؟ دنیا سے ہمیں محبت ہے اور موت سے نفرت ہے جس کی وجہ سے آج کافر ہمارے اوپر مسلط ہیں اور میرے نبی کا فرمان سچ ثابت ہو چکا ہے کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ پوری کائنات غلط ہو سکتی ہے لیکن ہمارے نبی کا فرمان نہیں غلط ہو سکتا صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔ راقم الحروف نے اپنی تقریر کے اندر اسی بات پر زور دیا کہ مسئلہ فلسطین کا حل صرف اور صرف جہاد میں ہے۔ اور جب نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت سے بدر و احد، خندق و حنین، فتح مکہ و تبوک کا ذکر ہو رہا تھا تو شرکائے دھرنا کا جوش و خروش دیدنی تھا اور بار بار سبیلنا سبیلنا الجہاد الجہاد۔ طریقنا طریقنا الجہاد الجہاد کے نعرے لگ رہے تھے۔
یقین مانیں کہ دھرنے کی ایک ایک ادا سے اسلام کی خوشبو آ رہی تھی۔ یہاں پر آئے تھے تو جانے کو دل نہیں کر رہا تھا۔ بچوں، بوڑھوں، جوانوں، عورتوں، کا جذبہ دیدنی تھا اور صرف مرد ہی نہیں بلکہ عورتوں کے خیموں سے بھی الجہاد الجہاد کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ تقریر کے بعد یونیورسٹی سے آنے والے وفد کا استقبال کیا گیا اور ان کے ساتھ تعارفی مجلس کی گئی۔ 20، 25 کے قریب بچے اپنے پروفیسر صاحب کے ساتھ تشریف لائے تھے۔ سب سے تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ قائد اعظم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی سے سب کا تعلق ہے اور پروفیسر زمان صاحب اس شعبے کے سربراہ ہیں۔یہ دھرنا اب آہستہ آہستہ تحریک کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور کیوں نہ تحریک کی شکل اختیار کرے کہ جب اتنا پاکیزہ لہو اس تحریک میں شامل ہو جائے جس کو اللہ نے اپنی بارگاہ میں قبول کیا ہے۔ میری مراد جناب ” شہید اقصی ” محمد رومان شہید سے ہے۔ جی ہاں جناب یہ پاکیزہ لہو جس کی بات کی گئی ہے یہ اسی نوجوان کا لہو ہے جس کے اوپر رات کو سوتے ہوئے گاڑی چڑھا دی گئی۔ چند دن پہلے جب دھرنا شروع ہوا تھا تو یہ چند ہی لوگ تھے اور یہ رات کو سڑک پر سوئے ہوئے تھے
کہ ایک بدبخت نے ان کے اوپر گاڑی چڑھا دی۔ کچھ افراد زخمی ہوئے اور محمد رومان موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اس میں شریک ہو رہا تھا۔ اس کی جو کچھ پوسٹیں میں نے پڑھی اور جو اس نے اپنے دوست کو کچھ میسجز وغیرہ کیے اس کے مطابق یہ کہہ رہا تھا کہ یار میں تو دھرنے میں شریک ہونے کے لیے جا رہا ہوں آپ استاد محترم کو کہہ دینا کہ میری حاضری لگا دیں۔ اگر لگا دیں گے تو ٹھیک ہے اگر نہ لگائی تو کوئی بات نہیں میں کوئی اپنی ذات کے لیے تو نہیں جا رہا۔ میں تو ان مظلوم مسلمانوں اور فلسطین کے بچوں عورتوں کے لیے جا رہا ہوں جن کو ہماری ضرورت ہے۔ تھوڑی دیر بعد ظہر کی نماز کا ٹائم ہو گیا اور وہیں پر ظہر کی نماز باجماعت ادا کی گئی۔ ظہر کی نماز کے بعد شرکائے دھرنا کے لیے کھانا پیش کیا گیا۔ کھانے کے بعد جب دوبارہ سیشن شروع ہوا تو اس میں قائد اعظم یونیورسٹی سے آئے ہوئے پروفیسر زمان صاحب کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ پروفیسر صاحب نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ فلسطین کا مسئلہ صرف ہمارا ہی نہیں
بلکہ پوری امت کا مسئلہ ہے اور ا کر آج اگر ہمار ے حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے اس تحریک کی طرف توجہ نہ کی اور ان مظلوم فلسطینیوں کی آواز پر لبیک نہ کہا تو ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔ انہوں نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا کہ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کو انٹرنیشنل لیول پر ادا کریں۔ عرب ممالک کو ساتھ ملا کے ایک مضبوط لائحہ عمل تیار کریں اور اپنی فوجوں کو فلسطین کے اندر بھیجیں۔ طالب علم نور الدین کے بعد لالہ موسی گجرات سے تشریف لائے ہوئے محمد شکیل بھائی کو دعوت خطاب دی گئی۔