استاد بجا طور پر کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ملک میں جتنے بھی افراد مدرسے سکول یا مکتب گئے اور آج وہ کسی بھی حیثیت میں ملک کی خدمت کر رہے ہیں وہ استاد کی محنت کا ثمر ہوتے ہیں استاد بیج سے درخت بنانے کے عمل میں پوری قوت سے خدمت کا عمل سر انجام دیتے یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں وہ ایک الگ مقام رکھتے ہیں
کسی بھی معاشرے کو پستی میں دھکیلنا ہو تو نظام تعلیم سے استاد کا مقام کمتر کر دیں مقامی بولی کو ختم کر دیں معاشرہ خود بخود نیچے آ گرے گا ماضی میں استاد شاگرد کا ایک مثالی تعلق تھا اس رشتے کو مرتے دم تک نبھایا جاتا تھا استاد صرف نسل نو کی تیاری میں مگن رہتے وہ سکول وقت سے ہٹ کر اپنا وقت لگاتا تاکہ اس کا شاگرد معاشرے میں اپنا مقام بنائے استاد اپنی قلیل تنخواہ میں گزر بسر کرتے اور اپنے پیشے کی لاج رکھتے سکول صرف دو طرح کے ہوتے تھے ایک گورنمنٹ کے سکول جس میں دینی دنیاوی تعلیم دی جاتی باقاعدہ نماز پڑھائی جاتی قرآن پڑھایا جاتا عربی مضمون پرھایا جاتا زراعت اور ہوم اکنامکس کے عملی مضامین پڑھائے جاتے اور آنے والے دور عملی زندگی کی تیاری کروائی جاتی تھی
جبکہ دوسری طرف دینی مدارس جو علماء کی نسل نو تیار کرتے پرائیویٹ سکول یعنی انگریزی ذریعہ تعلیم انتہائی کم اور برے شہروں تک معدود تھے ٹیوشن کلچر نہ تھا ٹیوشن پڑھنے والے بچوں کو نالائق تصور کیا جاتا جو سکول وقت میں پڑھ نہیں سکتے اساتذہ بھی ٹیوشن پڑھانے کو معیوب تصور کرتے تھے پھر اچانک ماڈرن ازم کا دور آگیا تعلیم کو صنحت کے طور پر لیا جانے لگا چھوٹے چھوٹے سکول جس میں نہ گراؤنڈ تھے نہ مناسب سہو لیا ت نقل کلچر نے فروغ پا لیا ٹیسٹ پیپر فوٹو کاپی‘واٹس ایپ امتحان مافیا چھا گیا بے
جا ڈانٹ ڈپٹ تنگ ماحول گھٹن سے طلباء کی ذہنی صلاحیتوں کو نقصان پہنچتا ہے مناسب طریقے سے تدریسی ماحول ہی ایک نسل کو بہتر طریقے سے پروان چڑھا سکتا ہے ماضی میں اساتذہ صرف الیکشن کی ڈیوٹی سر انجام دیتے تھے مگر آج کل مختلف ڈیوٹیاں سر انجام دینا پڑتی ہیں جن کا حکومت معاوضہ دیتی ہے لیکن ان تمام اوقات میں تعلیم کا حد درجہ نقصان ہوتا ہے سکولوں میں کبھی گرمیوں کی کبھی سردیوں کی کبھی سرکاری گزٹ چھٹیاں کبھی پیپروں کے بعد کی چھٹیاں طلباء کا سالانہ تعلیمی دورانیہ معدود ہو جاتا ہے
اس وقت میں بے اعتنائی کا نقصان ایک نسل کی تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بے روزگار نوجوانوں کا ریکارڈ تحصیل کے ایک دفتر میں رکھے پھر ان نوجوانوں سے ڈینگی ملیریا پولیو خانہ شماری مردم شماری امن وامان سمیت مختلف کام لے جو سرمایہ خطیر تنخواہیں وصول کرنے والے اساتذہ کو ان ڈیوٹیاں کرنے کا دیتے ان نوجوانوں کو دیں غربت بھی کم ہو گی اور بے روزگار جوانوں کو کام بھی ملے گا اور طلباء کا تدریسی عمل بھی متاثر نہیں ہو گا نسل نو کی ان کلیوں کی حفاظت ہمارے بہتر مستقبل کے لیے بہت ضروری ہے یاد رکھیں تعلیم اس قوم کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔