ابتدا اس پروردگار کے پاک نام سے جس نے انسان کو قلم جیسی نعمت دی۔اسامہ جمشید صاحب کا مجموعہ ”نغمے پتوں کے“ رمضان سے پہلے موصول ہوا جسے میں نے ایک ہی نشست میں تین بار پڑھا۔ چند مصروفیات کی بناء پر تبصرہ لکھنے میں تاخیر ہو گئی۔سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے اسامہ جمشید، 1984 میں اردن میں پیدا ہوئے۔ طویل عرصے سے راولپنڈی اسلام آباد میں سکونت پذیر ہیں اردو‘ انگریزی‘ عربی زبانوں کے مترجم ہونے کے ساتھ ساتھ صحافت سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف اداروں سے وابستہ رہے۔ کئی ملکی و غیر ملکی مجلات اور ادبی تنظیموں کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مکمل لکھاری بھی ہیں۔ عربی لکھاری کے طور پر بھی کام کرتے رہے ہیں۔ تدریس‘ کتابیں‘ بچوں کا ادب‘ تعلقات عامہ‘ تنظیمی امور‘ آئی ٹی‘ فلاحی کام‘ تحریک‘تصوف‘ شاعری، اندرون وبیرون ملک سفر، مصوری، کھیل اور آرٹ ورک کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ایک قطعہ
اب کھول کے اپنی زلفوں کو
جوگی کو نظارہ دے جاؤ
دل، جان،جگر ہم کھو بیٹھے
تم اور خسارہ دے جاو
112 صفحات پر مشتمل غزلوں آزاد اور نثری نظموں کا یہ مجموعہ فطرت سوز و گداز رومانویت اور حساسیت کا منہ بولتا ثبوت ہے میرے نزدیک اسامہ جمشید فطرت کا شاعر ہے ایک ایسا شاعر جس کا دست قلم قرآن کی اس آیت پر عمل کرتا ہوا دیکھائی دیتا ہے ” زمین کی سیر کرو اور کائنات میں جو کچھ ہے اس کی تسخیر کرو ”(نغمے پتوں کے) غزل کا آخری شعر سورہ الانعام کی آیت کا مفہوم ہے ” اور درخت سے گرنے والا کوئی ایسا پتا نہیں ہے جس کا علم اسے نا ہو ”ہر دن ہماری آنکھوں کے سامنے کئی منظر آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں بہت کم لوگوں ان مناظر کو اپنی آنکھوں سے گزار کر قلم کے ذریعے ہمیشہ کے لیے مقید کر لیتے ہیں۔یہ شب وروز بہار خزاں درخت پتے کائنات کا ہر حسن محسوس کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ انسان صاحب بصارت ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب بصیرت بھی ہو۔ قدرت نے انسان کو جن شاہکار اور انمول نعمتوں سے نوازا ہیں ان میں سب سے بڑی نعمت بصارت ہے۔اسامہ جمشید کی شاعری میں بھی قوت مشاہدہ صاف اور واضح طور پر محسوس کہ کس طرح شاعر نے قدرت کے حسین نظاروں کو قریب سے دیکھا اور محسوس کیا ہے جس طرح انھوں نے اپنی کتاب میں پتوں کی سرسراہٹ پتوں کا شور پتوں کے نغمے پتوں کا بکھرنا ہنستے کھیلتے پتے اور کئی ایسی اصطلاحات استعمال کئے ہیں میرے نزدیک اسامہ جمشید فطرت کا شاعر ہے۔ ایک ایسا شاعر جو ایک طرف تو ہرے پتوں کے نغمے ان کی تازگی اور ان کی خوشی کو محسوس کرتا ہے تو دوسری طرف خزاں میں ٹہنیوں سے جدا ہو کر زمین پر بکھرے سوکھے پتوں کی کرب و الم سے بھی واقف ہیں اختر عثمان صاحب کے نزدیک اسامہ جمشید خیر کا شاعر ہے جن کی شاعری میں انسانیت کا عنصر نمایاں طور پر نظر آتا ہے ” میں نے کبھی کنجوس کو محبت دیتے نہیں دیکھا،محبت تو ہمیشہ سخی لوگوں کے ہاتھوں سے پھوٹتی ہے۔ ”(شمس الدین تبریز)محبت ایک خدائی وصف ہیاور یہ عام انسان کے بس کی بات نہیں اسامہ جمشید صاحب کے کلام میں شاعری ریاضت اور صوفیانہ رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے ایک ایسا تصوراتی جہاں جو قاری کو فطرت کے عین قریب کر دیتا ہے ہیلن لیکر جو ایک بصارت سے محروم مصنفہ ہے وہ اپنے مضمون ”Three days to see” میں لکھتی ہے کہ اگر مجھے صرف تین دن دیکھنے کے لیے مل جائیں تو ان میں سے بصارت کے دوسرے دن مجھے طلوع صبح کے ساتھ اٹھنا چاہیے اور ہیجان خیز معجزہ دیکھنا چاہیے جس کے باعث رات دن میں تبدیل ہوتی ہے۔وہ لکھتی ہے کہ میں جو دیکھ نہیں سکتی سینکڑوں چیزیں جن میں مجھے دلچسپی ہوتی ہے محض چھونے سے ڈھونڈ سکتی ہوں۔میں پتے کی نازک بناوٹ کو محسوس کرتی ہوں موسم بہار میں پر امیدی سے درختوں کی ٹہنیوں کو کونپل کی تلاش میں چھوتی ہوں وہ لکھتی ہے کہ اگر میں کسی یونیورسٹی کی صدر ہوتی تو یہ نصاب لازمی قرار دیتی کہ ” اپنی آنکھوں کا استعمال کیسے کرنا چاہیے ”اور اگر آپ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ اپنی آنکھوں کا استعمال کیسے کرنا چاہیے تو ابھی اسامہ جمشید کی کتاب” نغمے پتوں کے ” کا مطالعہ کرئے اور قدرت کے حسین مناظر کو اپنی آنکھوں کے سامنے رقص کرتا ہوا محسوس کرے۔مالک قلم کے اس سلسلے کو جاری و ساری رکھے اور آپ یوں ہی خیر بانٹیں اور خیر پائیں۔
112