وہ بہت پریشان تھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی اور سرخی موجود تھی اس کی گردن جھکی ہوئی تھی۔ وہ کبھی اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھتا تو کبھی اردگرد دیواروں پر غور کرتا۔ کبھی وہ آسمان کی طرف اپنی نگاہیں بلند کرتا تو کبھی اپنے کپڑے جھاڑنا شروع کر دیتا۔ میں نے دیکھا کہ وہ بہت بھوکا بھی تھا اور شاید پیاسا بھی۔ گرمیوں کی وہ دوپہر بہت تپش اور آگ برسانے والی دوپہر تھی۔
اس کے ہاتھ میں ایک شاپنگ بیگ اور ایک عدد لفافہ تھا جس میں بہت پرانی سی ویز (CVs) تھیں جو صبح سے شام تک مختلف اداروں میں وہ دیتا تھا اور ہر طرف نا امیدی اس کو ملتی۔ جب وہ میرے پاس بیٹھا تو چند لمحوں بعد اسے معلوم ہوا کہ یہ آدمی انسان دوست شخص ہے تو اس نے درد بھری آہ بھری اور روتے ہوئے کہا کہ میں بہت مجبور ہوں۔ M.Comکرنے کے بعد بھی بے روزگار ہوں اور میرے گھر کے حالات بھی بہت خراب ہیں۔ اس کی وہ حالت اور مزید اس کی باتیں سننے کی طاقت مجھ میں نہیں تھی۔ میری برداشت اس دن نہ جانے کیوں اتنی جلدی دم توڑ گئی۔ میں نے اس کو اپنے پاس بٹھایا اس کے دکھ درد کو اپنا درد جان کر اس کی حوصلہ افزائی کی اور اسے اپنے ایک دوست کے پاس بھیجا جو ایک کالج کا پرنسپل ہے
۔ میں نے سفارش تو نہیں کی مگر یہ ضرور کہا اگر یہ کسی قابل ہے تو اسے نوکری دے دینا۔ اس نے میرے کہے کی لاج رکھی۔ اللہ اسے خوش رکھے۔ مختصر یہ کہ وہ لمحات اس کی زندگی کو تبدیل کر دینے والے تھے۔ لہٰذا اسے یہ خوشخبری ملی کہ وہ اس ادارے میں بطور کامرس لیکچرر تعینات ہو گیا ہے۔ وقت گزرتا گیا اس کے مالی حالات دن بدن بہتر ہوتے گئے۔ وہ بہت خوش نظر آنے لگا۔ دو ماہ بعد اس نے ایم فل میں داخلہ لے لیا۔ چار پانچ ماہ بعد میری ملاقات جب اس سے ہوئی تو وہ مکمل طور پر تبدیل ہو چکا تھا۔ اس کے قیمتی کپڑے بتا رہے تھے کہ وہ یا تو مالی لحاظ سے بہت کامیاب ہو چکا ہے یا پھر وہ نمود و نمائش کا عادی ہے۔ اس دن میں نے محسوس کیا کہ وہ عاجزی اور انکساری سے نکل کر تکبر کے میدان میں اپنا جاہ و جلال اور رعب و دبدبہ منوانا چاہتا تھا۔
مزید وقت گزرا اور اس نے ایم فل مکمل کر لیا اور اب وہ پی ایچ ڈی کی تیاری کے لیے ہر محفل میں اپنا اگلا معرکہ بیان کرتا ہوا پایا جاتا ہے۔ جس ادارے میں وہ کام کرتا تھا اس ادارے کا معروف استاد بن چکا تھا مگر معلوم یہ ہوا کہ وہ اخلاقی لحاظ سے کمزور بھی ہو گیا تھا۔ اس کی باتیں اور اس کی گفتگو وہ گفتگو نہیں تھی جو چند برس قبل گندے اور میلے کپڑوں میں ملبوس شخص کی تھی۔ اس کی باتیں وہ باتیں نہیں تھیں جن میں عاجزی و انکساری تھی اور وہ قابل رحم محسوس ہورہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ رب کی ذات انسان کو دے کر بھی آزماتی ہے اور محروم رکھ کر بھی آزما ہی رہی ہوتی ہے۔ یعنی انسان ہر حال میں کمرہء امتحان میں ہی ہوتا ہے۔ آج کل وہ اس ادارے سے نکل کر ایک بڑے ادارے میں کام کر رہا ہے مگر اب انتظار اس بات کا ہے
کہ وہ اس غبارے کی طرح جس میں سے اچانک گیس خارج ہو جائے اور وہ فوراً زمین بوس ہو جاتا ہے کب زمین پر آتا ہے۔ انتہائی بدبخت ہوتا ہے وہ شخص جو اپنی ناکامیوں کا گلہ تو رب سے کرتا ہے، اپنی پریشانیوں کی شکائتیں تو رب ذوالجلال سے کرتا ہے مگر اپنی کامیابیوں پر اس رب کے سامنے عاجزی و انکساری کرنے سے گریز کرتا ہے۔ اپنی تمام تر کامیابیوں کو اپنی دن رات کی محنت سے جوڑ دیتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہ رب اگر کسی کو ناکام کرنا چاہیے تو اس کی تمام تر صلاحیتوں کو زنگ لگا دیا کرتا ہے۔ انسانی عقل ناقص ہے جبکہ اللہ کا فضل و کرم سب سے بڑھ کر ہے۔ لہٰذا عقل پر گھمنڈ کرنے والے ناکام اور رب کے فضل پر یقین رکھنے والے ہر دم کامیاب۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا
کہ اللہ کی ذات غرور کی چادر میں لپٹے ہوؤں اور عاجزی و انکساری رکھنے والے اشخاص کو برابر صف میں لاکھڑا کرے۔ وہ ذات انصاف کی پیکر ہے۔ وہ ذات اپنی نعمتوں اور رحمتوں کے ذریعے یہ باور کرواتی ہے کہ وہ رب ہے وہ رحیم و کریم اور سزا و جزا کی مالک ذات ہے۔آغاز میں بیان کردہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی ابھی اس شخص نے آسمان کی بلندیوں کو نہیں چھوا۔ اگر آسمان کی بلندی کو چھو لینے سے قبل وہ ہدایت یافتہ ہو گیا تو رب کی ذات معاف کرنے والی ذات ہے۔ وہ تمام غلطیوں اور ماضی کی لغزشوں کو معاف کر دے گی اور اگر اڑتے ہوئے مزید تکبر پیدا ہوا تو وہ ذات جو زمین سے آسمان تک لے جایا کرتی ہے
وہ آسمان سے زمین تک لانے میں ایک لمحہ نہیں لگاتی۔ میں نے اور آپ نے اپنی زندگیوں میں بے شمار برج گرتے ہوئے دیکھے۔ میں نے اور آپ نے بے شمار ممالک میں آنے والے زلزلوں، سیلابوں اور طوفانوں کی سچی کہانیاں تو سنی ہوں گی۔ جن کے رونما ہو جانے کے بعد رنگ رلیاں منانے والے اپنی موت آپ مرتے دیکھے گئے ہیں۔ بزرگ کہا کرتے ہیں کہ ظرف والے اور کم ظرف افراد کا تعارف اس وقت ہوتا ہے جب رب کی ذات انہیں خوشیاں اور کامیابیوں سے نوازتی ہے۔ اگر تو وہ کوئی اعلیٰ ظرف والا ہو تو رب کی ذات کا شکر ادا کرتا ہوا پایا جاتا ہے اور وہ پہلے سے زیادہ نرم مزاج اور عاجز بن جایا کرتا ہے
اور اگر کوئی کم ظرف انسان کسی قابل ہو جائے تو وہ دنیا میں تباہی و بربادی کا مرتکب بھی پایا گیا ہے۔ در اصل رب کی ذات تو دلوں کے حال تک جانتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ وہ ذات ایسے حالات پیدا کر کے انسانوں کو دنیا کے سامنے لا کھڑا کر کے نشان عبرت بناتی ہے تاکہ ہدایت کا راستہ آسان ہو جائے۔ کسی شخص کی تمام تر کامیابیاں رب کے فضل کی مرہون منت ہوتی ہیں اور کسی آدمی کی تمام تر ناکامیاں اس آدمی کا یا تو امتحان یا آزمائش ہوتی ہیں یا پھر سزا۔ جس شخص پر یہ مشکلات یا آزمائشیں آتی ہیں وہ بخوبی جان رہا ہوتا ہے کہ وہ اس کا اپنا کیا دھرا ہے اور اگر کوئی بے گناہ ہے اور اس پر اللہ کی طرف سے کوئی پریشانی آ جائے تو وہ یقینا آزمائش ہی ہے
جو رب کے نیک بندوں کے لیے ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ جنت تک جا پہنچتا ہے۔ جو پریشانی یا تکلیف رب کے قریب کر دے وہ آزمائش اور جو تکلیف رب کی ذات سے مزید دور کر دے وہ یقینا اس رب کی طرف سے سزا اور عذاب ہوا کرتی ہے۔ اس نتیجہ تک جانے کے لیے نہ تو بہت بڑی ٹریننگ یا تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی کسی فارمولے یا پیمانے کی۔ اس کے لیے تو صرف ایک لمحے کے لیے اپنے گریبان میں جھانکنا ہوتا ہے۔ جس کے بعد کسی مبلغ کی ضرورت ہر گز پیش نہیں آتی۔ آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ ابھی وقت نہیں گزرا‘ ابھی برف نہیں پگھلی، ابھی زندگی ہے۔ مگر جب وقت ہاتھ چھڑا کر بھاگ گیا تو پھر کیا ہو گا؟ ابھی شام نہیں ہوئی۔ جب شام کے سائے ڈھلنے لگیں گے تو پھر اندھیرے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔