ابرار احمد خان کا تعلق اُس خاندان سے ہے، جس نے تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ لیا۔آزادی وطن کے لئے اُن کے گھرانے کے درجنوں افراد نے جام شہادت نوش کیا،
ان کے اسلاف آگ اور خون کا دریا عبُور کر کے پاکستان پہنچے۔ ابرار احمد خان کی والدہ مرحومہ کا شمار بھی ان شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنا گھر بار لٹا کر پاکستان ہجرت کی۔
آئیے اس عظیم ماں کی کہانی ان کے بیٹے ابرار احمد خان کی زبانی سنتے ہیں۔قیام پاکستان کا اعلان ہوتے ہی مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کردی گئی انسانیت کی اسقدر تذلیل کی گئی
کہ آج بھی انسانیت تو کیا حیوانیت بھی کانپ جاتی ہے۔ سر عام مسلمان عورتوں کی عزتیں لوٹی جاتیں، بلکہ سینکڑوں مناظر ایسے بھی دیکھنے میں آ تے تھے
کہ ہندو سکھ لائنوں میں لگ کر مسلمان عورتوں کی عصمت دری کرتے، ہزاروں مسلمان عورتوں نے اپنے ہاتھوں اپنے آ پ کو عزت بچانے کیلئے مار دیا۔ ہزاروں مسلم عورتوں نے کنوووں میں کود کر جا ن دیدی، اس کے باوجود ہزاروں عورتوں کو ہندوووں اور سکھوں نے اغواء کر کے اپنے گھروں میں قید کر لیا
، ہزاروں مسلم عورتوں کا جبری مذ ہب تبدیل کر دیا گیا اور ”امرت کور‘ بسنت کور‘ کامنی کوشل اور بلونت کور“ بننے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔آج صبح میں نے ابرار بھائی کو فون کیا
کیونکہ مجھے ابرار بھائی خواب میں نظر آئے اور وہ اپنی والدہ کی تلخ ترین زندگی کا قصہ مجھے سنا رہے تھے جو چند ماہ قبل میرے سامنے بیٹھ کر سنایا تھا اؤر اس وقت میں نے بھی خاموشی سادھ لی
اور اپنے آپ کو ابرار سمجھ کر اپنا کلیجہ دل اور سارا جسم قربان کر دیا اس دھرتی ماں پر کیونکہ ابرار بھائی بھی اپنی ماں کا زکر کر کے مکمل طور پر اس ملک پاکستان اور دھرتی ماں کیلئے ریزہ ریزہ ہوتے دکھائی دے رہے تھے
آج یہ تلخ ترین واقع اور سبق آموز قصہ لکھتے ہوئے میں خود کو 1947 ء میں محسوس کر رہا ہوں جب پاکستان اور ہندوستان الگ الگ ہو رہے تھے۔ ا برار بھائی کہنے لگے کہ شاہد بھائی اب مت بولنا بس سنتے جاؤ۔ کہنے لگے کہ جب پاکستان اور ہندوستان الگ الگ ہونے
تو میرے بڑے بھائی حسنات احمد خان نے مجھے سب کچھہ بتایا کہ سکھوں نے ہماری والدہ کا پیچھا کرنا شروع کر دیا اور والدہ اکیلی تھی۔ میرے بھائی جو اس وقت بہت چھوٹے تھے
وہ میری والدہ کے پاس تھے اور میری ماں کے سامنے بلوائیوں نے اسکو چھین کر والدہ کے سامنے شہید کر دیا مگر میری والدہ نے حوصلہ رکھا اور بھاگتی رہی۔
اچانک انہوں نے چھت سے چھلانگ لگا دی۔ جب سکھوں کو معلوم یوا ک یہ عورت نیچے گر کر زخمی ہو گئی ہے تو انہوں نے میری والدہ کو اینٹوں سے مارنا شروع کر دیا۔
جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ مر گئی ہیں تو وہ وہاں سے چلے گئے۔۔ کہنے لگے کہ میرے تایا عطا نے والدہ کو ڈھونڈنا شروع کر دیا اور جب وہ زور سے بولے کہ ادھر کوئی پٹھانوں کی عورت ہے
۔ یہ سن کر میری والدہ کی سسکیوں بھری آواز سنائی دی اور تایا نے والدہ کو وہاں سے بچایا اور کہنے لگے چلو پاکستان چلتے ہیں مگر والدہ نے سختی سے کہا کہ آپ یہاں سے بھاگ جاؤ میں تو یہ دنیا چھوڑ رہی ہوں آپ مجھے چھوڑ کر فوراً یہاں سے بھاگ جائیں اور اپنی جان بچائیں۔ اس کے بعد میرے تایا نے جو جملہ بولا وہ یہ تھا”
اگر میں تمہیں کو چھوڑ کر چلا گیا تو میں تمہارے والد کو کیا جواب دوں گا“پھر کیا ہوا کہ زندگی یکسر بدل گئی۔ وہ میری والدہ کو خون میں لت پت لیکر وہاں سے نکل گئے
۔ رات کو سفر کرتے اور دن کو کسی جنگل میں جھاڑیوں کے نیچے چھپ جاتے۔ زندگی تیرے تعاقب میں یہ لوگ اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
ہر لمحے بلوائیوں سے خود کو بچاتے رہے۔ اس سفر کے دوران کچھ سکھوں نے اُنہیں دیکھ لیا اور ان پر حملہ آور ہو گئے۔ الحمدللہ میرے تایا عطا نے سب کو جہنم واصل کر دیا۔
زندگی کا یہ سفر دوبارہ جاری رہا اور پاؤں لہو لہان اور جسم ریزہ۔بس کچھ مت پوچھیں۔ وہ سفر کسی قہر سے کم نہیں تھا‘ بحر حال ابرار احمد نے یہاں تک بتایا کہ میری والدہ، میرے پھوپی زاد بھائی مقبول خان اور میرے تایا نے جہاں سے جانور پانی پیتے تھے
وہاں سے بار بار پانی پیا اور کھانے میں معلوم نہیں کیا کیا کھایا ہو گا‘بہت دن سفر کیا۔ کبھی پیدل تو کبھی کسی سواری پر بیٹھ جاتے کیونک انسانیت تو ہر وقت موجود ہوتی ہے۔
بہت سارے سکھوں نے بھی انہیں پاکستان پہنچانے میں مدد کی۔ جب اللہ اللہ کر کے پاکستان پہنچے تو عورتوں میں سب سے پہلی خاتون میری والدہ تھیں۔ زرا سوچیں کہ اس والدہ کا کیا حال ہوا ہوگا
کہ جس کے سامنے اس کے بیٹے کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا اور پھر وہ اسے وہاں چھوڑ کر پاکستان آ گئی۔ جب پاکستان پہنچی تو سر پر انتہا درجے کی چوٹیں تھی اور سر بہت بڑا ہو گیا تھا۔
مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔جو زخمی پاکستان میں داخل ہو رہے تھے ان کی حالت انتہائی تشویشناک تھی۔ کسی کا بازو کٹ گیا تو کسی کی ٹانگ لیکن ان کا جذبہ ابھی بھی جوان تھا۔ جوں ہی وہ پاکستانی سرحد میں داخل ہوتے تو فضا اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھتی۔
پاکستان میں ہر بارڈر پر refugeeکیمپ قائم تھے جہاں مہاجرین کا استقبال کیا جاتا اور زخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کی جاتی
۔ابرار بھائی کے والد محترم جو قیام پاکستان کے وقت ریلوے اسٹیشن ٹیکسلا میں تعینات تھے وہ حسنات احمد خان اور ابرا بھائی کی والدہ کی تلاش میں ہر کیمپ کی خاک چھان رہے تھے۔
آخر کار واہگہ بارڈر پر تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اور پھر یوں آزادی کی راہ میں اس ہولناک سفر کا اختتام ہوا۔
جب والدہ پاکستان آئی تو پھر اس کے بعد انکے ہاں 4 بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ساری فیملی ہندوستان کی حدوں میں تھی اور ابو کا سارا خاندان شہید ہو گیا تھا۔
ابرار بھائی کی ایک پھپو ہندوستان میں رہ گئی تھی اور اسکے حوالیسے ابرار بھائی کی والدہ ابرار کو بتاتی رہتی تھی۔ کسی کے یوں بچھڑنے پرکسی کی یاد آنے پربہت سے لوگ روتے ہیں
کہ
رونا اک روایت ہے
محبت کی علامت ہے
میں ان پر پیچ راہوں پر
غم جاناں سے گھبرا کر
روایت توڑ جاتا ہوں
تمہاری یاد آنے پر
میں اکثر مسکراتا ہوں۔ (والدین کے نام)
جاتے جاتے بس اتنا کہوں گا کہ انسان نے ہر حال میں مر جانا ہے یہ دنیا چھوڑ جانی ہے۔ کچھ ایسا کر کے جائیں کہ جب آپ یہ دنیا چھوڑ جائیں تو لوگ آپ کیلئے دعائیں کریں نہ کہ آپ کا نام سن کر شرمندہ ہو جائیں
۔ ابرار بھائی اپنے والدین کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور دیکھ لیں ہر محفل میں بڑوں کے ساتھ بڑے اور بچوں کے ساتھ بچے اور غریب اور امیر میں کوئی فرق نہیں رکھتے۔ جہاں پر ڈٹ جانے کی بات آتی ہے
تو گردن اونچی کر لیتے ہیں اور سینہ تان لیتے ہیں اور جہاں غلطی ہو جائے وہاں گردن نیچے کرلیتے ہیں اور انکی زبان سے یہ الفاظ نکلتے ہیں ”انسان سے انسان کو کینہ نہیں اچھا۔ جس سینے میں ہو کینہ وہ سینہ نہیں اچھا