115

آرائیں برادری سیاست کے نام پر تقسیم

وقت کسی کا غلام نہیں ہوتا اس لیے کسی کی پرواہ بھی نہیں کرتا اتنا سنگدل ہے کہ جو اس کی پرواہ نہیں کرتا اسے ایسی مار مارتا ہے کہ پینے کو دو بوند پانی بھی نہیں ملتا۔کہتے ہیں ہر قدم سوچ سمجھ کراُٹھانے میں ہی عافیت وآشتی چھپی ہوتی ہے لیکن عجلت پسند اکثر و پیشتر اس عافیت کو در خوداعتنا نہیں سمجھتے بنا سوچے سمجھے وہ کرگذرتے ہیں جس کا انجام صرف ناکامی کی صورت نکلتا ہے منفی طرز عمل اختیار کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں

کہ اس سے راستے کٹھن اور منزل دور ہوجاتی ہے کبھی کبھی زیادہ ہوشیاری بھی دھری رہ جاتی ہے اور حالات کی ستم ظریفی انسان کو ایسے دوراہے پرلاکھڑا کرتی ہے کہ پھر اسے بہت سی ان چاہی اور ناپسندیدہ چیزوں کو اپنانا پڑتا ہے اللہ کی رسی کومضبوطی پکڑو اور ٹکڑے ٹکڑے مت ہوجاؤکے حکم کے باوجود اس سے انکار ممکن نہیں کہ سماج نے اس حکم کو پس پشت ڈال کر خود کو ذات برادری میں تقسیم کررکھا ہے

مسلمانیت اور پاکستانیت میں ذات برادری کی بدعت فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے 1985 کے غیرجماعتی الیکشن میں واقع پذیر ہوئی جب سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے امیدواروں نے ذات برادری کے بنیاد پر الیکشن لڑے اور پھر یہ مرض ہر گذرتے وقت شدت اختیار کرتا چلا گیا 1985کے غیر جماعتی الیکشن میں گوجرخان سے دیگر چند برادریوں کی حمایت سے آرائیں برادری نے فتح سمیٹی اس کے بعد 1997 تک ہر الیکشن میں آرائیں برادری اس نشست پر کامیاب ہوتی رہی

اس وقت تک آرائیں برادری مکمل طور پر متحد تھی جن کے باہمی اتفاق نے انہیں 1985، 1988،1990،1993،1997 میں کامیابیاں عطا کیں پھر برادری کے نام پر سیاست کرنے والے خود کو مختیار کل سمجھنے لگے برادری کا اکٹھ کرکے فیصلے کرنے کے بجائے برادری پر فیصلے مسلط کیے جانے لگے جس کا نتیجہ 2002 کے الیکشن میں سامنے آیا 2008 میں مزید تنزلی ہوئی 2013 میں برادری کو متحد کرنے کا ایک بہترین موقع بھی گنوا دیا گیا کہ برادری کے اکٹھ میں رائے لے کر فیصلے کے بجائے برادری پر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو ووٹ کرنے کا فیصلہ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی

جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ برادری ٹکڑوں میں بٹ گئی فیصلہ مسلط کرنے والے برادری سے اپنے فیصلے پر عمل نہ کروا سکے اور یوں کوشش کے باوجود یہاں سے مسلم لیگ دونوں نشستیں جیت گئی ہوا یہ کہ جیتنے والے برادری کے اکٹھ میں پی پی اور پی ٹی آئی کو سپورٹ کرنے کے فیصلے کو لے کہتے پائے گئے کہ آرائیں برادری کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ نشستیں نکال گئی دوسری جانب شکست خوردہ امیدواروں نے بھی آرائیں برادری کے ووٹ نہ ملنے کا شکوہ کیا یعنی دونوں جانب آرائیوں کے ووٹوں کو بے وقعت کردیا گیاآج حالت یہ ہوچکی کہ برادری کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں

برادری کے نام پر سیاست کرنے والوں نے اپنے دور میں اقتدار میں تو برادری کے لیے کچھ نہ کیا البتہ اپنی ناعاقبت اندیشی اورخود پرستی میں برادری کو بے وقعت اور بے وزن کردیا ایک وقت میں جو برادری متحد ہوکر ایک طویل وقت تک اپنا لوہا منواتی رہی آج خود پرست اور خود ساختہ رہنماؤں کی مفاد پرستیوں کی باعث کہاں کھڑی ہے یہ برادری کے لیے سوچنے کی بات ہے شاید یہاں آرائیں برادری کی اکثریت نے اپنی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں