36

؎ جس کی لاٹھی اس کی بھنیس انصاف شہریوں کیلئے خواب بن گیاتھا

نہ کچہری ریاست کی جانب سے قائم کئے ایسے ادارے ہیں جہاں مظلوم انصاف کے حصول کیلئے اپنی جدوجہد کرتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں انصاف کیلئے ادارے انصاف کی بجائے ظلم کررہے ہیں۔

جس وجہ سے معاشرہ میں بدامنی پھیل رہی ہے۔مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ کوئی بھی کیس تھانے میں دائر ہوتا ہے سب سے پہلی رکاوٹ ایف آئی آر کے چاک ہونے میں آتی ہے۔

پولیسنگ نظام میں معلوم و نامعلوم ملزمان نامزدگی کیلئے الگ قانون ہے۔ کئی کیسز میں ایف آئی آر درج ہونے باوجود کاروائی آگے نہیں بڑھتی۔ پنڈی پوسٹ کو موصول معلومات کے مطابق تھانہ کہوٹہ میں درج ایک دائر کیس کے ملزمان تاحال سیاسی پشت پناہی باعث گرفتار نہیں کئے جاسکے

۔ جو کہ انصافی کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔تحصیل کہوٹہ میں ٹمبر مافیا کی گاڑیاں آئے روز پکڑی جاتی ہیں لیکن کبھی بھی مالکان کا نام سامنے نہیں آیا۔ کیس گاڑی اور ڈرائیور پہ ڈال دیا جاتا ہے

یوں اصل ذمہ داران کاروائی سے بچ نکلتے ہیں۔ اگست 2024 تک تھانہ کہوٹہ میں مختلف کیسز اور جرائم کی 550 کے قریب ایف آئی آر ہوچکی ہیں جو کہ آٹھ ماہ میں ہوئی ہیں۔ ان میں زیادہ کیسز لڑائی جھگڑے، لین دین، زمین کے تنازعے، ناجائز اسلحے اور منشیات فروشی اور قتل اقدام قتل جیسے سنگین جرائم بھی شامل ہیں۔

بڑے کیسز ہائی لائٹ ہونے کے باعث کبھی نہ کبھی نمٹ جاتے ہیں اور مدعی کو انصاف مل جاتا ہے یا راضی نامی کی صورت میں کیس ختم ہوجاتا ہے۔ چھوٹے موٹے کیسز بغیر ایف آئی آر درج ہوئے راضی نامے ہوجاتے اور پولیس ملازمین کیلئے بھی اے ٹی ایم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاہم ایسے کیسز جن میں راضی نامہ ممکن نہیں ہوتا اور ہر صورت مدعی انصاف چاہتا ہے پولیس اور خاص کر سیاسی کھڑپینچوں کیلئے چیلنج ہوتا ہے،

جیسے بچوں اور خواتین سے ظلم و زیادتی، سنگین لڑائی جھگڑے وغیرہ مقامی امن کمیٹیوں، سیاسی نمائندوں اور تھانہ کیلئے ٹیسٹ کیس بن جاتے ہیں۔

جن میں سوائے میرٹ پہ کاروائی کرنے کے کوئی راہ نہیں بچتی۔ مصدقہ معلومات کے مطابق تھانہ کہوٹہ میں خواتین پہ ظلم کا ایک کیس تاحال ملزمان کی گرفتاری پہ رکا ہوا ہے جس میں براہ راست سیاسی مداخلت شامل ہے۔ لڑائی جھگڑے کے ایک اور کیس میں نچلی عدالت سے ملزم کی ضمانت خارج ہونا

جبکہ اسکی ملزم کو اعلی عدالت سے ضمانت مل جانا المناک صورتحال ہے۔قانونی پیچیدگیوں کے داو پیچ میں انصاف رُل جاتا ہے۔اس طرح کے نتائج معاشرے کیلئے غلط ہیں اور معاشرے میں بدامنی، دشمنی اور بدلے کی روایت کو پروان چڑھاتے ہیں۔ اس صورتحال کو ختم کرنے کیلئے

پنجاب حکومت، وزیر قانون، پنجاب اسمبلی، وزیراعظم اور وزیراعلی کو چاہئیے کہ انصاف کے تقاضے پورا کرنے کیلئے سخت مانیٹرنگ اور شکایات کا سیل جو کسی بھی سفارش کو بالائے طاق رکھتے ہوئے

مظلوم کو انصاف دلائے۔ کیونکہ دیر سے انصاف ملنا نہ ملنے کے برابر ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں