153

ضرورت بنیادیں درست کرنے کی ہے

تحریر ٗزنیرہ غزالی

بنیادیں چاہے کسی عمارت کی ہوں یا کسی قوم کی اگر وہ مضبوط ہونگی تو عمارت اور قوم دونوں مضبوط ہونگی۔ بات اگرقوم کی کی جائے تو قوم بھی ایک عمارت ہی ہے جسکی بنیاد وہ ادارے ہیں جو قوم کے لوگون کو شعور دیتے ہیں۔ مہذب ممالک اب چھوٹے بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت پر بھی زور دے رہے ہین۔ بات پاکستان کی کی جائے تو تو ہر با شعور پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا ہمارے تعلیمی ادارے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی دے رہے ہیں یا نہیں؟
میں نے ایک میگزین میں ایک صاحب کا مضمون پڑھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ وہ اپنے ساڑھے تین سالہ بچے کو پلے گروپ میں داخل کرانے کے لیے سکولوں کا وزٹ کررہے تھے دوران وزٹ ایک سکول کی خاتون پرنسپل سے جو اپنی فصیح و بلیغ انگریزی سے کافی دیر سے انھیں مرعوب کیے جارہی تھیں پوچھ بیٹھے کہ آپ پلے گروپ کے بچوں کو کیا سکھاتے ہیں؟ جواب ملا کہ آپ کو میرے انگریزی سے اندازہ نہیں ہوا کہ ہم بچوں کو کتنی اچھی انگریزی سکھاتے ہیں؟ وہ بولے کہ انگریزی کے کمالات کا تو میں معترف ہوں مگر یہ تو محض ایک زبان ہے اصل بات تو یہ ہے کہ آپ بچوں کو کیسی تربیت دیتے ہیں اور ان میں کس طرھ کے رجحانات پیدا کرتے ہیں۔ اس پروہ خاتون بھنا اٹھیں اور بولیں کہ یو تو آپ نے بڑی مڈل کلاس کی سوچ ظاہر کی۔ وہ صاحب کہتے ہیں کہ مجھے بھرے شہر میں ایک بھی ڈھنگ کا سکول نہ ملا جہاں ماڈرن تعلیم کے ساتھ کردار سازی کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہو۔
وہ مضمون پڑھنے کے بعد میں سوچنے لگی کہ یہاں کا ہر سکول یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ ان کے ہاں ماڈرن لائف سٹائل پایا جاتا ہے۔ کہیں کلاسیکل موسیقی اور کراٹے سکھانے پر فخر کیا جاتا ہے تو کہیں امریکن اسٹائل میں انگریزی بولنے پر اترایا جاتا ہے مگر کردار سازی کا نام لیا جائے تو وہ محض ایک مڈل کلاس کی سوچ بن کر رہ گئی ہے۔ کیا کردار ایک انسان کی بنیاد نہیں؟ کیا کبھیے بنیاد کے بغیر بھی عمارت کھڑی رہی ہے؟مگر اس خرابی کی بنیاد صرف اسکول کو بھجی نہیں کہا جا سکتا۔ بلکہ اس کی بنیاد ہم جیسے شہری مڈل کلاس کے لوگ ہیں جو احساس کمتری کا شکار ہیں۔ مارکیٹ کبھی بھی ڈیمانڈ اور سپلائی کے بغیر استوار نہیں ہوتی۔ اگر والدین کی ترجیحات اور رجحانات مختلف ہونگے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کروڑوں کی سرمایہ کاری کرنے والے سکول اس طرح کا رویہ اپنائیں۔ اخلاقی اقدار والدین اور اساتذہ دونوں کی ترجیح ہو نی چائیے۔کردار سازی اور اخلاقی اقدار کی منتقلی پر تو اسلامی معاشرے نے شروع ہی سے بہت زور دیا تھا۔ پھر آجکل کے لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ یہ چیزیں تواسلام کی شان تھیں اور حقیقی ترقی کا ذریعہ بھی۔ مگر ہم لوگوں نے اس کو چھوڑ دیا تو غیر مسلموں کو اپنی بنیادوں میں شامل کر لیا۔ میری ایک دوست کی بہن جو کہ انگلینڈ میں رہتی ہیں ان کی بیٹی وہاں نرسری کلاس میں پڑھتی ہے وہ بتانے لگیں کہ کچھ عرصہ بعد انھیں محسوس ہوا کہ بچی کو پڑھایا نہیں جا رہا وہ بچی کے سکول گئیں اور ہیڈ میسٹریس سے ملیں کہ مجھے لگ رہا ہے کہ آپ لوگ میری بچی کو پڑھا نہیں رہے؟ سکول کی سربراہ نے بڑے رسان سے جواب دیا کہ آپ نے درست اندازہ لگایا ہم نرسری سے لے کر ون تک بچے کو پڑھاتے نہیں سکھاتے ہیں۔ پھر بچی کی والدہ کو عملی طور پر دکھایا گیا کہ کس طرح ٹیچر بچوں کی محض کلاس میں بٹھانے کی بجائے سکول کے احاطے میں گھماتی رہتی ہے۔ صحن میں لگے درخت کے پاس لے جا کر انھیں بتاتی ہے کہ یہ درخت ہمیں آکسیجن اور سایہ فراہم کرتا ہے اس پر لگا پھل کھایا اور لکڑی سے فرنیچر بنتا ہے۔ چونکہ یہ درخت ہمارا محسن ہے اس لیے ہمیں جواباً اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ پھر ننھے بچوں سے درخت کو پانی دلایا جاتا ہے۔ اس طرز کے مختلف طریقوں سے بنیادی اخلاقی قدریں پختہ کی جاتی ہیں۔کتنا اچھا طریقہ ہے اس طرح بچوں کو پڑھانے کا کیا ہم اس طریقے سے بچوں کو دوسروں کے حقوق ادا کرنا نہیں سکھا سکتے؟ میرے خیال میں تو ہمارے نصاب میں کردار سازی اور شخصیت کی تعمیر کو اہمیت دی جانی چاہیے ۔ سچائی، ایمانداری اور دوسروں کا خیال رکھنے کو ان کی شخصیت کا بنیادی جزو بنا دیا جائے۔ چند برسوں کی محنت سے پوری قوم ایک نئی روح پھونکی جا سکتی ہے۔
ایک ٹی وی پروگرام میں ایک خاتون کو کہتے ہوئے سنا کہ ہم جتنا بھی بگڑ جائیں مگر خنزیر کا گوشت نہیں کھاتے کیونکہ ہماری مائیں بچپن سے اس حوالے سے ہمارے اندر کراہت پیدا کرتی ہیں ہم اس کا نام زبان پر نہیں لاتے۔ اگر والدین اور اساتذہ اتنی محنت بچوں میں سچائی پیدا کرنے لگا دیں تو پورا معاشرہ سچائی اور دیانت کے اصولوں پر استوار ہو جائے گا۔
قوموں کو زندہ رکھنے والا بنیادی عنصر ان کی اخلاقی اقدار ہی ہوتی ہیں۔ مسلمانوں نے اتنا عرصہ دنیا پر حکومت کی کیونکہ ان کی بنیادیں پختہ تھیں۔ مغل دور میں جب ان کی اخلاقی اقدار کمزور ہونا شروع تو ان کے زوال کو کوئی نہ روک سکا۔ پاکستانی قوم میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے مگر ہم اقوام عالم میں اخلاقی ساکھ کھو چکے ہیں تو ضرورت کس امر کی ہے؟ بنیادیں درست کرنے کی۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں