245

لانس نائیک محمد محفوظ شہید

لانس نائیک محمد محفوظ شہید ضلع راولپنڈی کے ایک گاؤں پنڈ ملکاں (اب محفوظ آباد) میں پچیس اکتوبر انیس صد چوالیس کو پیدا ہوئے اور انہوں نے پچیس اکتوبر انیس سو باسٹھ کو پاک فوج میں شمولیت اختیار کی اور سترہ دسمبر انیس سو اکہتر کو جام شہادت نوش کیا۔

انہوں نے پاک بھارت جنگ حصہ اور بڑی شجاعت اور دلیری سے دشمن کا مقابلہ کیا۔ ان کی اسی بہادری کے اعتراف میں پاک فوج نے انہیں اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا۔

لانس نائیک محفوظ کی میت رات ایک بجے ان کے گھر پہنچی جب گائوں کے لوگ سو رہے تھے۔ لانس نائیک محفوظ کے والد راجہ مہربان مویشیوں کی رکھوالی کی غرض سے کہیں اور سو رہے تھے۔ اس وجہ سے ماں نے ہاتھ میں لالٹین پکڑ پکڑ کر جب دروازہ کھولا تو اپنے دروازے پر ہجوم دیکھ کر حیران ہو گئیں۔ چند ایک لوگوں نے لانس نائیک محفوظ کی شہادت کی خبر دی جس پر ضبط کے تمام بند ٹوٹ گئے اور ماں کی آہ و بکا نے ماحول کو افسردہ بنا دیا۔ جیسے ہی راجہ مہربان کو بیٹے کی شہادت کا علم ہوا تو انہوں نے سنتے ہی بے ساختہ اللہ اکبر کہا اور بیٹے کی میت کو دیکھنے چلے آئے۔ تابوت کو چھوتے ہوئے کہنے لگے خدا کا شکر ہے کہ میرے بیٹے نے اپنے خاندان اور ساری قوم کی لاج رکھ لی

۔ اسی روز بعداز نماز ظہر شہید کو ان کی آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ خاندان کے افراد اور تمام گائوں والوں کی خواہش تھی کہ لانس نائیک محمد محفوظ کی لاش کو قبرستان سے نکال کر الگ دفن کیا جائے جہاں شایان شان مقبرہ تعمیر ہو۔ مقامی انتظامیہ کے لوگ اس کے حامی نہ تھے لیکن مقامی علما کا تعاون خاندان والوں کو حاصل تھا۔ ان کا ایمان تھا کہ شہید کے جسد خاکی کو زمین کچھ نہیں کہہ سکتی اس لئے ان کے جسد خاکی کو نئی جگہ منتقل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

بہرکیف چھ ماہ تیرہ دن بعد شہید کی قبر کی کھدائی شروع ہوئی حالانکہ گرمیوں کا موسم تھا لیکن اچانک آسمان پر بادل چھا گئے ٹھنڈی ہوا چلنے لگی۔ علماء کرام قبر کے قریب تلاوت قرآن پاک کر رہے تھے۔ قبر کے پاس جانے کی اجازت صرف شہید کے گھر والوں کو تھی۔ جب لاش نکالی جا رہی تھی تو تابوت سے خون کے تازہ قطرے ٹپک رہے تھے۔ گھر سے ایک برتن منگوایا گیا جو شہید کے خون سے بھر گیا جب قبر کھودی گئی تو دور دور تک فضا معطر ہو گئی۔ محمد محفوظ کے بھائی نے شہادت کے وقت اپنے بھائی کا دیدار نہ کیا تھا کیونکہ وہ اس وقت شمالی علاقہ جات میں فرائض کی انجام دہی کے لئے گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے علما سے التجا کی کہ وہ اپنے شہید بھائی کا دیدار کرنا چاہتے ہیں۔ دوسروں کو کچھ نہ بتانے کی شرط پر انہیں چہرہ دیکھنے کی اجازت ملی۔ بعد میں والدہ کے کہنے پر بھائی نے بتایا کہ شہادت کے وقت محفوظ کی داڑھی نہ تھی لیکن چھ  ماہ بعد شہید کی داڑھی تین انچ بڑی ہو چکی تھی۔ زخموں سے خون بہہ رہا تھا اور لاش پر ڈالی گئی پھولوں کی پتیاں بھی اسی طرح تر و تازہ تھیں چہرے پر زخموں کے باوجود بشاشت اور طمانیت کے آثار نمایاں تھے۔ جس سے مقامی لوگوں کے ایمان میں پختگی آئی اور خوشگوار اثر ہوا اور شہید کے بارے میں خدائے ذوالجلال کا وعدہ بھی سچا ہوا۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں