168

میجر مسعود اختر شہید آف پھروالہ

فائز اختر کیانی

اقبال کا شاہین! میجر مسعود اختر شہید (ستارہ جرات) آف پھروالہ پوٹھوہار کے آخری حکمران سلطان مقرب خان کی پانچوں پشت کے ہاں ایک بچہ نومبر 1934 میں پیدا ہوا جس کا نام حضرت علامہ اقبال نے ” مسعوداختر ” تجویز کیا۔اسلام سے والہانہ عشق اورہندو دشمنی گویا کہ مسعود شہید کے خمیر میں شامل تھی۔ اسی بنا پہ پاک فوج کا حصہ بنے اور 1965 میں بھارت نے بے خبری میں پاکستان پہ حملہ کر دیا

اسکیم تو باکمال تھی کہ بے خبری میں پاکستان کے بڑے علاقے پہ قبضہ کر لیں۔ہندوستان کے پاس ترپ کا پتہ ان کا 1 آرمڈ ڈویژن تھا کہ جسے یہ فخر ہند کہتے تھے اور اس ڈویژن کو ٹاسک دیا گیا کہ چونڈہ کے مقام سے پاکستان میں گھس کر وزیر آباد تک آ کر جی ٹی روڈ پر قبضہ کر کے پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔میجر مسعود شہید جنگ کے آغاز پہ کھیم کرن (لاہور) کے دفاع کے بعد 12 ستمبر کو شہر اقبال کی حفاظت کیلے چونڈہ (سیالکوٹ) پہنچے۔

اور پھر 18 ستمبر کو وہ معرکہ آن پہنچا کہ جس کے متعلق بعد میں آرمی چیف جنرل موسی خان نے کہا کہ ” مسعود اختر کیانی نے طوفانوں کا رخ موڑ دیا اور نئی تاریخ رقم کی آج مسعود اختر شہید دشمن کی 16کیولری، 3 کیولری ہڈسن ہارس اور پونا ہارس کے،170 ٹینکوں کی یلغار کو روکنے کیلے اپنے ” C ” اسکوارڈن کے 10 ٹینکوں کے ساتھ کھڑا تھا اور فخرہند کو یہ پورا یقین تھا کہ اب انہیں دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی اور 18 ستمبر کو مسعود شہید کا سامنا فخر ھند سے ” بدیانہ ” کے مقام پہ ہوا۔پھر ایک انہونی ہو گی۔

مسعود شہید نے دفاع کی بجائے دشمن پہ حملہ کر دیا۔ وہ ترتیب اور پینترے بدلتا اور دشمن کو نشانہ بناتا اور اپنے جلتے ہوئے ٹینکوں کے ساتھ للکارتا کہ ” ایڈوانس جاری رکھو ” یہ طریقہ جنگ ایک دل گردے والا کمانڈر اور اقبال کا شاھین ہی لڑ سکتا تھا۔ دشمن بوکھلا گیا۔17 پونا ھارس کا کمانڈر کرنل تارہ پور چیخ چیخ کر اکھڑی ہوئی خوفزدہ آواز میں وائرلیس پہ اپنے ہیڈکوراٹر کو کہہ رہا تھا ” ہم نہیں لڑ سکتے۔ ان کے ٹینک جل رہے ہیں۔ لیکن یہ پھر بھی ایڈوانس کر رہے ہیں ‘

‘ بھارتی آرمی چیف جنرل چوہدری کی آواز وائرلیس پہ ابھری کہ جو کرنل تارہ پور کو گالیاں دے رہا تھا اور ساتھ میں لالچ بھی دے رہا تھا کہ اور کہہ رہا تھا کہ چونڈہ‘ پسرور روڈ پہ پہنچ جاؤ۔ وہاں تمہیں مہاویر چکر (بھارت کا سب سے بڑا فوجی اعزاز) تمہیں ملے گا۔یہ گفتگو مسعود شہید نے بھی سن لی اور اپنا ایڈوانس اور فائر اور تیز کر دیا۔ آج تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ مسعود شہید میں اپنے بابا سلطان مقرب خان کی روح بیدار ہو گئی ہے

۔ مسعود شہید کے ہاتھوں کرنل تارہ پورہ سنگھ اور ھڈسن ہارس کا کمانڈر مارا گیا۔ اقبال کے شاہین نے فخر ہند کے غرور اور تکبر کو خاک میں ملا دیا۔ اور بدیانہ کے راستہ کو ہندوستان کے جلے ہوئے ٹینکوں اور انفنٹری کی لاشوں سے بند کر دیا۔بدیانہ کے بعد دشمن کا فخر ھند ” جیسوراں ” میں آ چھپا۔ مسعود شہید کا اپنا ” C ” اسکورڈن تو جنگ لڑ چکا تھا۔ اب 19 لانسرز کے ” B ” اسکورڈرن ” کو مشن ملا کہ وہ جیسوراں کو کلیر کروائیں۔ مسعود اختر نے کہا کہ یہ کام بھی میرے سپرد کیا جاے۔

کمانڈر اور ساتھیوں نے بہت سمجھایا کہ تم مسلسل لڑ رہے ہو اور تھک چکے ہو لیکن وہ اڑ گیا کہ یہ معرکہ بھی میں ہی لڑوں گا کیونکہ اس بزدل فخر ہند کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ اس طرح مسعود شہید اپنے ” C ” اسکورڈن کو آرام کیلے چھوڑ کر ” B اسکورڈرن کے ساتھ پھر سے دشمن کے سامنے آن کھڑا ہوا۔ مسعود شہید نے دوبارہ ایک نئے مقام پر دشمن پہ حملہ کر دیا۔ اور تباہی مچا دی۔ لہو گرم تھا، خوب پلٹ جھپٹ کے وار کیے۔ دشمن اپنی آہیرفورس لے آیا۔ دشمن کے ایک جہاز کا گولہ مسعود شہید کے ٹینک میں آ پھٹا۔

گولے کا ایک ٹکڑا گردن گاہل کر گیا اور مسعود شہید چونکہ ٹینک کپولا میں تھا۔ اس لیے باہر آن گرا اب اس غیرت مند آفیسر نے دیکھا کہ ٹینک جل رہا ہے اور اس کے کریو کے 3 ساتھی ابھی تلک اس جلتے ہوئے ٹینک میں ہیں۔ اسے کب گوارہ تھا کہ اپنے ساتھیوں کو اس جلتے ہوئے ٹینک میں چھوڑ دیتا۔

وہ دوبارہ اٹھا ٹینک پہ چھڑنے بیرل پہ ہاتھ ڈالا۔ آگ کی تپش سے بیرل لال ہو چکی تھی۔ ہاتھ چپک گیا۔ اپناہاتھ چڑھایا اور جلتے ٹینک کے اندر چھلانگ لگا دی

۔ اور اپنے ساتھیوں کو اٹھا اٹھا کر باحفاظت ٹینک کے باہر پھینکا۔ ساتھی بچ گے لیکن مسعود شہید کا سارا جسم جل گیا۔صرف پاؤں سلامت تھے۔ اسٹریچر لایا گیا مسعود شہید نے کہا اللہ کو بس میری اتنی ہی حاضری قبول تھی۔ اسٹریچر پے نہیں بلکہ اپنے پاوں پہ جاوں گا۔ محاذ جنگ پہ شہید کے آخری الفاظ تھے ” اللہ پاکستان اور 19 لانسرز کا حامی و ناصر ہو! ایڈوانس جاری رکھو۔ ایڈوانس جاری رکھو۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں