228

1965 کی جنگ کا آنکھوں دیکھا حال انٹیلی جنس آفیسر سب انسپکٹر محمد رشید کی زبانی

سب انسپکٹر محمد رشید ولد نور محمد جنکا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع راولپنڈی کی تحصیل کہوٹہ کے گاؤں بھورہ حیال سے ہے۔ منگرال راجپوت قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اکتیس مئی 1933 کو پیدا ہوئے ۔ سال 1954 میں اکیس سال کی عمر میں بارڈر پولیس میں شمولیت اختیار کی ۔

بعد ازاں 1958 میں پاکستان رینجرز کے قیام کے بعد یہاں ٹرانسفر کر دئیے گئے ۔ چونکہ لاہور واہگہ بارڈر سمگلنگ ایریا تھا اس لئے وہاں انٹیلیجنس مضبوط چاہئیے ہوتی ہے۔ چونکہ اس دور میں روابط کا واحد ذریعہ تار والا فون تھا وہ بھی چوکیوں کے ایکسچیج ذریعے رابطہ ہیڈ کوارٹر میں ہوتا تھا۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے اور بعد کے واقعات سنتے ہیں انکی زبانی ۔

میں 1965 کی جنگ کے دوران واہگہ بارڈر پہ تعینات تھا۔آپکو وہ واقعات حادثات گوش گزار کرونگا جو جنگ سے پہلے اور بعد کے وہ واقعات آج تک منظر عام پہ نہ آئے اور نہ کسی کتاب میں موجود ہیں۔

یہ پانچ ستمبر 1965 کا دن تھا اور ہم واہگہ بارڈر کی ایک پوسٹ ساہنکے ( Sahanke) پہ معمول کی ڈیوٹی پہ تھے ، میرے انڈر 12اہلکار تھے۔ یہاں اس پاس کے گاؤں اور چوکیوں میں بھانو چک، ،کُرکی ، پدھانہ،،پٹھانکے،قلعہ جیون سنگھ ،موجو کے، لالو اور سجرا وغیرہ شامل تھے۔ جبکہ بھارت کے اس پار پنجاب کا گاؤں اٹاری ہے

جہاں سکھ اکثریت تھی۔ جی ٹی روڈ واہگہ بارڈر سے بھارت میں جاتی ہے۔
پانچ ستمبر 1965 کی شام سے ہی حالات کچھ ایسے لگ رہے تھے بارڈر پار غیر معمولی حرکات و سکنات کی بو آرہی تھی۔ چونکہ بارڈر پہ بارڈر سیکورٹی یا پاک رینجرز آگے پوسٹوں پہ ہوتے ہیں لہذا تمام ذمہ داری انکی ہوتی ہے کہ کسی بھی پیشرفت کی صورت میں فی الفور پیچھے ہیڈکوارٹر میں اطلاع دی جاتی ہے۔
شام تقریباً ساڑھے سات بجے ہیڈکوارٹر اطلاع دینے کیلئے ٹیلی فون کیا ، رنگ ہوتے ہیں کال ریسیو ہوگئی اور میں نے کہا بارڈر پہ غیر معمولی حالات نظر آ رہے ہیں ڈیوٹی معمولی کی جائی یا ایمرجنسی ، آگے سے نامعلوم شخص پوٹھوہاری میں بولا کہ معمول کی ڈیوٹی جاری رکھیں اور کال کٹ گئی۔

یہ ٹیلی فون لائن بالکل بارڈر کے ساتھ بچھی ہوئی تھی کسی بھی ہنگامی صورتحال میں رابطہ ہونا ناممکن ہوتا ہے۔
اسی دوران بھارت کی طرف جو گاؤں اٹاری تھا ایک دم بجلی چلی گئی اور گھپ اندھیرا چھا گیا ۔
رات آٹھ بجے ایکسچینج سے کال موصول ہوئی کہ اس کے بعد ہمارا اپ سے رابطہ ممکن نہ ہوگا ۔ان یقین ہوگیا کہ بھارت بارڈر کراس کر آیاہے ۔
رات بھر بے چینی رہی تاہم کسی بھی قسم کی فائرنگ یا ابھی تک حملہ نہ ہوا تھا۔
رات تقریباً تین بجے چکے تھے ،بارڈر پار سے پہلی پاکستانی چوکی کو نشانہ بنایا گیا اور ساتھ ہی پورے بارڈر سے ہلکے ہتھیار یوں سے فائرنگ شروع ہوگئی۔

چونکہ جی ٹی روڈ اور واہگہ نزدیک تھا اس لئے بھارتی فوج سے جی ٹی روڈ کے لاہور پہ قبضہ کرنے کیلئے ایڈوانس شروع کردیا تھا ۔ وہ پوری تیاری سے آئےتھے ۔ رات بھر کی تھکان کیوجہ سے بھارتی فوج ڈرتی رہی اور نہر تک پہنچنے کیلئے کئی گھنٹے لگ گئے ۔ واہگہ پوسٹ میں میجر علم دین اپنے تقریباً 35 ساتھیوں کے ساتھ موجود تھے ۔
لاہور کو بچانے میں سب سے زیادہ بہادری اور جرات میجر علم دین اور انکے ساتھیوں نے محدود ہتھیاروں کیساتھ مقابلہ کرکے دکھایا جنکا تاریخ میں ذکر موجود ہی نہیں
میجر علم دین اپنے والد اور بیوی بچوں کیساتھ واہگہ میں تھے

جب بھارتی فوج نے حملہ کیا بیوی اور بچوں کو واپس گھر بھیج دیا جبکہ والد صاحب نے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ واہگہ بارڈر پہ جب اسلحہ ایمومیشن ختم ہوگیا تو میجر علم دین اپنے والد اور چند ساتھیوں کےساتھ ریسٹ ہاؤس میں موجود تھے جب بھارتی آفیسر نے ہینڈز اپ کہا تو کسی بھی نے ہاتھ کھڑے نہ کئے تو بھارتی افسر نے میجر صاحب کو تھپڑ مار دیا ۔
غصے میں آکر میجر علم صاحب کے ایک ساتھی جنہوں نے رائفل میں آخری ایک دو روند چوری سنبھال رکھے تھے تان کر بھارتی آرمی افسر کے سینے میں داغ دئیے جس سے وہ موقع پہ ہلاک ہوگیا۔ یہ دیکھ کر بھارتی آرمی نے میجر علم دین انکے والد اور باقی ساتھیوں کو فائرنگ کرکے شہید کردیا

حالانکہ انکو قیدی بنایا جاچکا تھا ۔
راقم کو انکی زبانی کچھ واقعات بھی سننے پڑے جو اگر کسی فورم پہ بیان کردیئے جائیں تو شاید بولنے اور لکھنے والا دونوں لاپتہ افراد کی لسٹ میں چلیں جائیں ۔ واہگہ کے پاس ایک مقام پہ چار عدد ٹینک شکن توپ لگی ہوئی تھی، پانچ ستمبر کو وہ چاروں واپس لاہور بھیج دی گئی

جسکی معلومات جنگ کے بعد ہوئی۔ مزید کہ پانچ ستمبر کو پیشگی اطلاع کے موجود ہیڈکوارٹر کی طرف سے کسی قسم کا ایکشن نہ لینا اور رات کو تین بجے حملے کے بعد اسلحہ اور ایمونیشن بروقت نہ پہنچا بھی آج تک معمہ ہے۔

پاکستان پہ شاید اللہ کا خصوصی کرم ہے کہ آج بھی شدید معاشی حالات باوجود قائم و دائم ہے۔ ۱۹۶۵ کی ہی جنگ کے دوران ایسے واقعات سننے کو ملے کہ سبز لباس میں گھوڑے پہ سوار مخلوق دُیکھی گئی ہے جو بھارتی افواج کے حملے پسپا کرتی اور پاکستانی اطراف کی مدد کرتی ۔ تحریر لکھتے ہوئے ایک اور ریٹائرڈ بزرگ کا کہنا تھا کہ جنگ کے دوران ایک سپاہی ایمومیشن اٹھانے آیا تو کچھ وزن زیادہ تھا تو رک گیا ۔

دیکھتا ہے کہ گھڑ سوار آرہے ہیں گنتی میں چار معلوم ہوئے۔ پہلے گھڑ سوار کو مدد کیلئے ، انہوں نے کہا پیچھے آنے والا کریگا ، دوسرے کو کہا یہی جواب ملا ، تیسرے کو بمشکل کہہ سکا تو یہی جواب آیا ۔ چوتھا گھڑ سوار آیا تو رک گیا اور وزن اٹھانے میں مدد کی ۔ اس طرح کی واقعات بھارتی آرمی نے بھی بیان کئے کوئی طاقت ہمارے حملے ناکام بنا رہی۔
محمد رشید نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا بہرحال ہم اپنے پوسٹ پہ ڈٹے رہے جب تک مدد نہ آجائے ،چونکہ ہمارا کام صرف بارڈر سیکورٹی اور معلومات دینا ہوتا ہے ،

کسی حملے کی صورت میں جواب دے سکتے البتہ باقاعدہ لڑائی نہیں ہوتی۔ ہمارے پاس جو اسلحہ ایمونیشن تھا استعمال نہ ہوا چونکہ بھارتی فوج ہماری چیک پوسٹ سے اطراف سے دوری پہ آگے بی آر بی نہر جانب نکل گئی تھی۔ صبح کچھ دیر تک ٹاور پہ چڑھ کے دیکھا ضرور کہ کیا صورتحال ہے ، اتنی تعداد بھارتی آرمی کی جیسے مکڑی ہو۔ بہرحال علاقے میں گھاس اور کماد ہونے کیوجہ سے چند قدم بھی کچھ دکھائی نہ دیتا ۔

ہمارے ایک آفیسر گھوڑے پہ آگے جائزہ لینے جانے لگے تو ریل کی پٹری پاس ان پہ فائرنگ ہوئی لیکن بچ نکلے اور واپس آگئے۔
واہگہ بارڈر پہ ایک بس لاہور کیلئے نکلا کرتی تھی ، جب حملہ ہوا تو بس بھارتی آرمی لے گئی اور وہاں جا کر اعلان کیا کہ لاہور پہ قبضہ ہوگیا ہے۔ سکھ خوش ہوئے اور لاہور دیکھنے جانے کی تیاری کرنے لگے۔
یہ بات محمد رشید کے ایک جاننے والے نے انکو بتائی جب حملہ ہوا تو وہ بھارتی گاؤں میں گھس گئے اور سیز فائز ہونے کے بعد ملاقات ہوئی ۔
حملہ ہونے سے ایک دن پہلے پانچ ستمبر کو بھانوں چک چیک پوسٹ میں تعینات منشی فضل حسین کے بیٹے ہونے کی خوشی میں دعوت میں تھی جس میں ہماری چیک پوسٹ سے لوگ شامل تھے ۔
جب حملے کا مکمل ادراک ہوگیا تو زندہ دلان لاہور نے بھی بارڈر پہ جا کر لڑنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم اسکی ضرورت پیش نہ آئی اور جوانوں کا حوصلہ بڑھ گیا

اور بہادری سے لڑے۔ تاجروں نے مورچوں کے حفاظت کیلئے لوہے کی چادریں اور دودھ سمیت کھانے پینے کا ہر قسم کی چیز کے ڈھیر لگا دئیے گئے ۔
بھارتی گنوں کے گولے بارڈر سے بمشکل بی آر بی نہر اور لاہور سے پیچھے دیہات تک پڑ رہے تھیا سترہ دن جاری رہنے والی اس جنگ میں لاہوریوں نے جوانوں کا جذبہ کم نہ ہونے دیا۔
لاہور کو ٹارگٹ نہ کرسکنے کی وجہ سے بھارتی آرمی نے جی ٹی روڈ کے ذریعے گنوں کو لاہور کے قریب لے جانا چاہا ۔ تاکہ شہر کو نشانہ بنایا جاسکے۔ اسی دن پاک ایئر فورس کے چار جنگی جہاز اڑے جنہوں نے دیگر اہداف سمیت ان آگے بڑھتی گنوں کو نشانہ بنایا اور تباہ کردیا ۔

یہ وہ وقت تھا جب سیز فائز کا اعلان ہوچکا تھا اور چند لمحے باقی تھے یوں بھارتی آرمی کو منہ کی کھانی پڑی اور روس اور امریکہ کی ثالثی سے جنگ بندی ہوگئی۔معاہدہ تاشقند ہوا جس میں قبضے کئے گئے تمام علاقے دونوں ممالک نے واپس کردیے اور پرانی پوزیشن پہ آگئے۔
سترہ دن کی جنگ کے بعد محمد رشید کو خیر پور سندھ بھیج دیا گیا جہاں سے پھر واپسی کی کال ہوئی اور واہگہ بارڈر پہ دوبارہ تعیناتی ہوگئی۔ اسی دوران دوسری پاک بھارت جنگ 1971 بھی لڑی

جسکا احوال کسی اگلی تحریر میں کیا جائے گا ۔آپکی خدمات کے اعتراف میں ستارہ حرب اور تمغہ جنگ 1965 اور 1971 شامل ہیں ۔ صد سالہ جشن ولادت قائداعظم 1976 میں بھی شرکت کی ۔ انٹیلیجنس کورسز بھی کئے

۔
سال 1976 میں معروف صنعتکار و اسمگلر سیٹھ عابد کے دو گھروں سے جس ٹیم نے اس وقت دو من سولہ کلو سونا اور ، ایک کروڑ تیس لاکھ کیش اور پچاس لاکھ کی قیمتی گھڑیاں برآمد کی ۔ اپ اس ٹیم میں شامل تھے جس وجہ سے پوری ٹیم سمیت آپکو ترقی دی گئی ۔
محمد رشید نے 27 سال سروس کی اور مئی 1981کو غازی ریٹائر ہوئے۔ اپ ماشا اللہ گاؤں میں اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں