142

ہاتھ عوام کی جیبوں پر

قارئین کرام! گزشتہ روز ایک دوست کے ہاں موجود تھا کہ ایک صحافی دوست وہاں آ گئے، گپ شپ شروع ہوئی تو ملکی سیاست سے بات ہوتی ہوئی گوجرخان کی سیاست پر آ گئی، راجہ پرویز اشرف کے آمدہ الیکشن سے متعلق کافی گفت و شنید ہوئی اور پھر راقم نے گوجرخان میں کرائم کی صورتحال پہ بات کرنا چاہی تو جیسے صحافی دوست نے میرے منہ سے الفاظ اُچک لئے، گویا ہوئے کہ موجودہ ایس ڈی پی او کے منہ میں تو زبان ہی نہیں ہے اور شاید یہ صرف نشست پُر کرنے کیلئے بٹھائے گئے ہیں، موجودہ ایس ایچ او گوجرخان کی تعیناتی کے بعد گوجرخان میں جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور اعلیٰ افسران خواب خرگوش کے مزے لینے میں مصروف ہیں شاید کوئی بہت تگڑی سفارش کارفرما ہے، میں نے جیسا ذکر کیا کہ میرے منہ سے الفاظ اُچک لئے تو وہ مزید بولتے چلے گئے کہ موجودہ ایس ایچ او موصوف دینہ میں تعینات تھے تو وہاں پہ سکہ رائج الوقت کی چکا چوند کے باعث ایک جعلی مقدمہ بنا ڈالا اور پھر انسپکٹر سے سب انسپکٹر بنے اور پھر منت ترلا اور سفارشیں کرا کرا کر انسپکٹر بحال ہوئے اور پھر راولپنڈی کے حوالے کر دیئے گئے، موصوف بڑی تگڑی سفارش کے تحت گوجرخان میں تعینات ہیں اور موصوف کی ”خصوصی ٹیم” یہ دعویٰ کرتی ہے کہ صاحب بہادر کے بہت اونچے ہاتھ ہیں، گفتگو میں راقم نے بھی حصہ شامل کیا کہ چند دن قبل ہی راولپنڈی کے ایک صحافی دوست نے بتایا کہ وہ شہر اقتدار کے ایک اعلیٰ دفتر میں موجود تھے کہ انہی ایس ایچ او موصوف کی کال پہنچی تو موصوف صاحب مسند حضرت سے عرض کر رہے تھے کہ فلاں میرا بہت پیارا دوست ہے اس کو روات یا جاتلی تھانے میں تعینات کرا دیں تو بڑی ذرہ نوازی ہو گی، لیکن موصوف کی عرض گزاری پہ تاحال کوئی عمل نہ ہوا۔محترم قارئین! ایک جانب گوجرخان میں جرائم کی شرح میں روز بروز اضافے نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے، موجودہ ”بااثر” ایس ایچ او کی تعیناتی کے دوران درجنوں ڈکیتیاں ہو چکی ہیں مگر کسی بھی ڈکیتی کے ملزمان گرفتار نہیں ہو سکے اور شہر کے اندر مسلح ڈکیتیوں نے موجودہ ایس ایچ او اور انکی پوری ٹیم کی کارکردگی کا پول پوری طرح کھولا ہوا ہے اور اس پول میں مزید ڈکیتیاں شامل ہوتی جا رہی ہیں جیسے انہوں نے ریکارڈ بنانے کا عزم مصمم کر رکھا ہے

اسکے ساتھ غیرقانونی کاموں کو تحفظ دینے میں موجودہ ٹیم پوری طرح متحرک ہے، ذرائع کا یہ دعویٰ ہے کہ غیرقانونی پٹرول ایجنسیوں سے ماہانہ کی بنیاد پر منتھلی بھتہ وصول کیا جاتا ہے، پولیس اہلکاروں کی پرائیویٹ گاڑیوں اور پرائیویٹ موٹرسائیکلوں میں مبینہ طور پر مفت پٹرول ڈلوایا جاتا ہے اور تعاون نہ کرنے پر مقدمات درج کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں جن میں ایک واردات کا عینی شاہد راقم بھی ہے، ایک اور کیس راقم کے علم میں آیا کہ صرف دو گھنٹوں میں ایک شہری سے لاکھوں روپے کی رقم ہڑپ کر لی گئی اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی اور ایس ایچ او موصوف واقعہ سے ابھی تک لاعلمی کا اظہار کر رہے ہیں حالانکہ انکی ناک کے نیچے تھانہ گوجرخان میں یہ سارا وقوعہ وقوع پذیر ہوا مگر شاید حصہ بقدر جُثہ تقسیم ہوا اسی لیے وقوعہ دبانے کی کوشش جاری ہے۔ اس کے علاوہ ڈکیتیوں چوریوں کی خبریں
لگانے اور ایس ایچ او کی کارکردگی کو عوام کے سامنے لانے پہ موصوف صحافیوں سے بھی خفا ہیں اور اپنی نجی بیٹھکوں میں صحافیوں کو دبانے کے حربے زیربحث لا رہے ہیں مگر شاید انکو معلوم نہیں کہ یہ 2023 ہے۔بیول سے صحافی دوستوں سے گزشتہ روز بات ہو رہی تھی تو انہوں نے بتایا کہ بیول سے درجنوں موٹرسائیکل چوری ہو چکے ہیں مگر کسی ایک کا سراغ ابھی تک نہیں مل سکا، شہری حدود میں ولی خان کریانہ سٹور پہ دن دیہاڑے دندناتے ڈکیتوں نے ڈکیتی کی اور فائرنگ کرتے بھاگ نکلے، فوٹیج موجود لیکن ملزمان قانون کے شکنجے سے باہر، یہ اس امر کی جانب اشارہ ہے کہ کچھ بعید نہیں کہ مبینہ طور پر ایس ایچ او کی خصوصی ٹیم ان ڈکیتوں سے معاہدہ کر چکی ہو کہ مال آدھا آدھا کریں گے، کچھ بعید نہیں، کیونکہ ایسا سابقہ تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ مسلسل ڈکیتیاں ہوں اور کسی واردات کے ملزم پکڑے نہ جائیں، یہاں راقم کو انسپکٹر میاں محمد عمران عباس شہید کی یاد آ گئی جنہوں نے اپنی تعیناتی کے دوران ڈکیتیوں کو چیلنج سمجھتے ہوئے دنوں میں ٹریس کر کے مال برآمد کر لیا تھا، بس کام کرنے کی لگن ہو تو سب ہو سکتا ہے۔باخبر ذرائع کے مطابق یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ موجودہ ٹیم کے ساتھ مبینہ طور پر ٹاوٹوں کی بڑی تعداد روزانہ رابطے میں رہتی ہے جو اپنی اور ٹیم کی دیہاڑیاں لگوانے میں ہمہ وقت مصروف عمل ہیں اور مبینہ طور پر اس عمل کا حصہ کچھ سابقہ اور موجودہ سرکاری ملازمین بھی بنے ہوئے ہیں۔ذرائع کے مطابق موجودہ ایس ایچ او اور ٹیم کی کارستانیوں سے متعلق مختلف شکایات اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ چکی ہیں جن کے ازالے کے لیے شاید کسی مناسب وقت کا انتظار کیا جا رہا ہے تب تک صاحب بہادر عوام کی جیبیں کاٹتے پھریں کسی نے نہیں پوچھنا۔ تاہم تھانہ گوجرخان کی روایتی بے حسی کی وجہ سے شہری خود کو عدم تحفظ کا شکار سمجھتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ حلقہ کے ایم این اے اور سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف اس صورتحال کا سخت نوٹس لیں اور سی پی او راولپنڈی کو کسی فرض شناس انسپکٹر کی تعیناتی کے احکامات صادر کریں تاکہ شہریوں کی جیبوں پہ ڈاکے نہ پڑیں اور شہریوں کو تحفظ بھی حاصل ہو۔ والسلام

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں