پولیس کی بھتہ وصولی

قارئین کرام! گزشتہ روز ایک دوست کے ہاں ملاقات کے لیے گیا‘ اس کی دکان کے ساتھ ہی ایک پٹرول ایجنسی موجود تھی، ہم بات چیت کر رہے تھے کہ اسی اثناء میں بدون نمبر ایک موٹرسائیکل ہنڈا 125 پر پنجاب پولیس ”گوجرخان پولیس“ کے دو تگڑے نوجوان سرکاری وردی اور سرکاری اسلحہ سمیت وارد ہوئے، موٹرسائیکل پارک کیا اور پٹرول ایجنسی کے اندر چلے گئے، ہم باتوں میں مگن ہو گئے کہ شاید یہ ایجنسی والا انکا دوست ہے جس کو ملنے حضرات تشریف لائے ہیں، لیکن بعد ازاں جب راقم نے موٹرسائیکل میں پٹرول ڈالتے ایجنسی مالک کو پایا تو میری چھٹی حِس نے خبردار کیا کہ معاملہ مشکوک ہے، بہرحال اب میں اس پٹرول ڈالتے شخص سے اگر یہ سوال کرتا کہ یہ پٹرول کیوں ڈال رہے ہو اور وہ جواباً مجھے کہہ دیتا کہ پٹرول میرا ہے تمہیں کیا تکلیف ہے تو میں کس کا منہ دیکھتا، بس چند منٹ بعد دونوں باوردی و مسلح اہلکار ”پرائیویٹ موٹرسائیکل“ بدون نمبر کو سٹارٹ کر کے چلتے بنے تو راقم نے دوست کو ایجنسی والے کی طرف بھیجا کہ اس سے باتوں باتوں میں معلوم کرو کہ یہ پولیس اہلکار کیوں آئے تھے، اس پٹرول ایجنسی مالک نے میرے دوست کو بتایا کہ مجھ سے رقم کا تقاضا کر رہے تھے اور نہ دینے پر مقدمہ درج کرنے کی دھمکی دے رہے تھے میں نے انکو جیب خالی کرکے دکھائی کہ پیسے نہیں ہیں اور میں آج صبح ہی پٹرول لے آیا ہوں تو ان ملازموں نے کہا کہ چلو موٹرسائیکل میں پٹرول ڈال دو تو میں نے انکو پٹرول ڈال دیا اور وہ میرے سر سے ٹل گئے ورنہ کیا پتہ مجھ پہ پرچہ ہی ہو جاتا، میں نے دوست سے استفسار کیا کہ پرچہ کیوں ہو جاتا؟ تو اس نے بتایا اس پہ تین چار پرچے ہو چکے ہیں کیونکہ اس نے غیرقانونی پٹرول ایجنسی رکھی ہوئی ہے جب پیسے دے دیتا ہے اور پٹرول ڈال دیتا ہے تب اس کو کچھ نہیں کہتے۔ میرا تجسس مزید بڑھ گیا کہ اس معاملے کی کھوج لگانی پڑے گی، راقم نے شہر و گردونواح سے پٹرول ایجنسیوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کیا اور تحقیق شروع کی تو مختلف ذرائع سے معلوم ہوا کہ تقریباً شہر و تھانہ گوجرخان کی حدود میں پچانوے فیصد پٹرول ایجنسیاں غیرقانونی ہیں جبکہ ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان غیرقانونی ایجنسیوں سے ماہانہ کی بنیاد پر منتھلی بھتہ وصول کیا جاتا ہے، پولیس اہلکاروں کی پرائیویٹ گاڑیوں اور پرائیویٹ موٹرسائیکلوں میں مبینہ طور پر مفت پٹرول ڈلوایا جاتا ہے اور تعاون نہ کرنے پر مقدمات درج کئے جاتے ہیں اور جیل کی ہوا کھلائی جاتی ہے، اس سے آگے ایک اور کیس راقم کے پاس پہنچا کہ تھانہ گوجرخان میں تعینات چند ملازمین پر مشتمل ”خصوصی کمیٹی“ تشکیل دی گئی ہے جو شریف لوگوں کو مختلف ذریعوں سے ٹریپ کر کے ان سے رقم بٹور رہی ہے۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ تین یوم قبل شہریوں نے ایک موٹرسائیکل چور پکڑ لیا جس سے تین موٹرسائیکل شہریوں نے خود برآمد کئے اور بعد ازاں مزید تفتیش کیلئے پولیس کے حوالے کر دیا، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ موجودہ ایس ایچ او گوجرخان کی تعیناتی کے دوران درجنوں موٹرسائیکل چوری ہو چکے ہیں مگر آج تک ایک ملزم پکڑا نہیں جا سکا، درجنوں ڈکیتیوں و چوریوں کی وارداتیں دن دیہاڑے ہو چکی ہیں مگر کوئی ڈکیت چور ابھی تک گرفتار نہیں ہو سکا، باخبر ذرائع کے مطابق یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مبینہ طور پر چوروں ڈکیتوں کے ساتھ ”خصوصی ٹیم“ سازباز کر کے مال تقسیم کرتی ہے اور اس کا حصہ بقدر جثہ تقسیم کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ بڑے منشیات فروشوں کیساتھ کنفرم ڈیلیں کرانے میں نام نہاد شرفاء کا کردار ہے جو روزانہ مختلف اوقات میں تھانے کے اندر پائے جاتے ہیں، اسی تھانے کے سابق ایس ایچ او شیخ قاسم اور اشتیاق مسعود چیمہ کو منشیات فروشوں سے منتھلیاں لینے پر اس وقت کے ایس ڈی پی او شہزادہ عمر عباس نے معطل کرایا تھا، اشتیاق چیمہ اب تازہ تازہ تھانہ روات سے بھی معطل ہوئے ہیں، اب بھی پوزیشن یہی نظر آ رہی ہے کہ منشیات کے بڑے ڈیلرز کیساتھ معاملات طے ہو چکے ہیں جبکہ 150 سے 400 گرام چرس کے پرچے ان کیخلاف درج ہو رہے ہیں جو چرس انہی بڑے مگرمچھوں سے لے کر پیتے ہیں، پولیس کیخلاف خبریں لگانے پر مقامی صحافی نصیر بھٹی کیخلاف ڈیڑھ کلو چرس کا پرچہ درج کر کے پابند سلاسل کیا گیا مگر پولیس عدالت میں ثابت نہ کر سکی اور عدالت نے نصیر بھٹی کو باعزت بری کر دیا، شہر میں یہ بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے کہ ایس ایچ او موصوف کی تعیناتی سیاسی طور پہ کی گئی ہے جس کی وجہ سے پوری ٹیم دیدہ دلیری کیساتھ شہریوں کو لوٹنے میں مصروف ہے اور سابق ایم این اے خورشید زمان کا کہنا درست لگ رہا ہے کہ گوجرخان میں شہریوں کو لوٹنے کیلئے پورا گینگ تعینات کیا گیا ہے جو سیاسی آشیرباد سے شہریوں کو لوٹ رہا ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دوران رمضان المبارک ڈکیتیوں کی پے در پے وارداتوں کے ملزمان تاحال گرفتار نہ ہو سکے اور ان ڈکیتیوں کی وارداتوں کے دوران ایک نوجوان کی موت بھی واقع ہوئی تھی تاہم پولیس تھانہ گوجرخان کی روایتی بے حسی کی وجہ سے شہری خود کو عدم تحفظ کا شکار سمجھتے ہیں، چونکہ اس وقت پنجاب میں نگران حکومت ہے اور کسی کو کوئی پوچھنے والا نہیں تاہم ادارے نگران یا مستقل حکومتوں کی مرضی کے تحت نہیں چلنے چاہئیں اور انکو مکمل غیرسیاسی ہونا چاہیے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حلقہ کے ایم این اے اور سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف اس صورتحال کا سخت نوٹس لیں اور سی پی او راولپنڈی کو کسی فرض شناس انسپکٹر کی تعیناتی کے احکامات صادر کریں تاکہ شہریوں کی جیبوں پہ ڈاکے نہ پڑیں اور شہریوں کو تحفظ بھی حاصل ہو۔والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں