columns 69

ھم آزاد ہیں

  دنیا میں اگر کوئی بھی ملک ترقی کی منازل طے کر رہا ھو تو یہ سمجھا جائے گا کہ اس ریاست کے جو چار ستون ہیں جن میں مقننہ عدلیہ انتظامیہ اور صحافت شامل ہیں وہ خلوص نیت ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ اپنے فرائض کما حقہ ادا کر رہے ہیں پھر اسی طریقے سے اگر دیکھا جائے کہ کوئی ملک بلندی سے پستی کی جانب مسلسل پھسل رہا ہے اس ملک کا نظم و نسق ناقص ہو رہا ہے اس کی معیشت ڈوب رہی ہے اس کے عوام پریشان حال اور قسم پرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کی زندگی مزید مشکلات  کا گہوارہ بن رہی ہے آئے دن مہنگائی بے روزگاری لاقانونیت بڑھ رہی ہے

ملک میں کوئی قانون و قاعدہ  نہیں ہر طرف افرا تفری ہے قتل و غارتگری  چوری ڈکیتی فراڈ کے واقعات بڑھ رہے ہیں لوگ اپنے ملک کو چھوڑ کر دوسرے ممالک کا سفر کر رہے ہیں اس ملک میں روزگار کے ذرائع  دن بدن کم ھو رہے ہیں لوگوں کی قوت خرید میں بھی کمی واقع ھو رہی ہے اور تو پھر جان لیں کہ اس کے یہ چاروں ستون اپنے فرائض ایمانداری کے ساتھ سر انجام نہیں دے رہے ان ممالک میں ایک ملک پاکستان بھی ہے اگر اس کے انتظامی  نظم و نسق کو دیکھا جائے سارا شیرازہ ہی بکھرا ھوا ہے چوری ڈاکہ تو اج کل ایک رواج سے زیادہ فیشن بن چکا ہے پہلے کبھی سنتے تھے کہ کراچی کے اندر گن پوائنٹ پر کسی سے نقدی سودہ سلف موبائل وغیرہ چھین لیا گیا ہے لیکن اج یہ سب کچھ ہر گلی محلے کے اندر ھو رہا ہے کسی کی جان مال عزت و آبرو محفوظ نہیں

بیرون ملک سے کئی کئی سالوں بعد لوٹنے والے راستے میں ہی اپنی سالوں کی محنت مشقت کی کمائی سے ھاتھ دھو بیٹھتے ہیں چھوٹی چھوٹی  باتوں پر لڑائی جھگڑے اور قتل و غارتگری کا بازار گرم ہے نہ انتظامیہ کو فکر ہے اور نہ عدلیہ کو یہ دونوں سیاست دانوں کے گھر کی لونڈی بنی ھوئی ہیں انتظامیہ نے ان کے ایک اشارہ ابرو پر ان کے دشمن کو ناکوں چنے چبوانے ہیں تو عدلیہ نے ان کے ہی کیس سننے ہیں باقی عوام بھاڑ میں جائے الغرض عوام کی کہیں شنوائی نہیں اگر ہمارے سیاست دانوں کی بات کی جائے تو بلا شبہ ہمارے ملک کو قائم کرنے میں سیاست دانوں نے اہم کردار ادا کیا ہے سیاست دانوں کے  بغیر یہ ملک بننا ناممکن تھا کیونکہ یہ ملک حاصل کرنے کے لیے ھم نے کوئی باقاعدہ منظم مسلح کوشش نہیں کی بلکہ یہ ملک گفت و شنید بحث مباحثہ دلائل و براہین کے ذریعے حاصل ھوا ہے

مگر افسوس اس بات کا ہے کہ جو لوگ اس کو حاصل کرنے کی تکالیف میں اپنا تن من دھن قربان کرتے رہے لوگوں کو نئے ملک کے لیے قائل کرتے رہے اس کے فوائد گنوانے رہے آزادی کے خواب دیکھاتے رہے اور وہ خود دنیا کی سب سے بڑی ھجرت اور لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کے چشم دید گواہ تھے  وہ کیسے ان ساری پریشانیوں دوکھ درد قربانیوں کو بھول سکتے تھے انہوں نے تو اس ملک وقوم کو عظیم سے عظیم تر بنانے کی قسمیں اور وعدے کیے تھے غریب و مسکین سادہ لوح عوام کی آنکھوں میں آزادی مساوات آئین و قانون کی حکمرانی اسلامی فلاحی ریاست کے خواب  بسائے تھے لیکن آج جب ملک بن گیا اور ان خوابوں کو سچ کرنے کا وقت آیا تو ان خوابوں  کو سچ کرنے کی فکر کے بجائے اقتدار کے نشے میں مست ھو کر سب کچھ بھول بیٹھے اس کی تعمیر  و ترقی کو سرے سے ہی بھول  گے اپنے اقتدار کے لیے ایک بھائی کے دل میں دوسرے بھائی کی نفرت پیدا کرنے لگے

زبان لباس خوراک کی بنا پر نفرت کے بیج بوتے رہے ساری فکر ساری توجہ ان امور پر صرف کرتے رہے اور ان غریبوں کو بھول گے جنہوں نے اس ملک کے لیے اپنوں کی جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے  ایک آدمی کے پاس سب سے بڑھ کر عزت و ناموس ھوتی ہے انہوں نے اس مقصد کے لیے اپنی عزت و آبرو بھی قربان کر دی لیکن یہ اسے ایک مساوات عدل وانصاف بھرا معاشرہ اور ایک اچھا آئین نہ دے سکے بلکہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے  رہے اور مسلسل کھینچ رہے ہیں اقتدار کی کشمکش میں انہوں نے ھماری معیشت کو تباہ کر دیا ہے زراعت جو ھماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی وہ بھی تباہ ھو چکی ہے

ہمیں اناج دوسرے ممالک سے منگوانا پڑتا ہے ھمارا ملک غیر اعلانیہ ڈیفالٹ کر چکا ہے ڈالر کے مقابل ھمارا روپیہ گراوٹ کی انتہا کو پہنچ چکا ہے وہ افغانستان جو پچاس سال سے حالت جنگ میں ہے اس کا روپیہ آج بھی ھم سے کہیں زیادہ مضبوط ہے ڈالر کے مقابل اسی افغانی روپے آتے ہیں جبکہ ھمارے تین سو جب یہ صورت حال ھمارا آج کا نوجوان دیکھتا ہے تو اس کے دل میں اپنے آزادی کے ہیروز کے خلاف میل آ رہی ہے ان پر انگلی اٹھاتا ہے کہ ھمارے آباء و اجداد نے یہ ملک بنا کر غلطی کی ہے وہ دو قومی نظریہ کی بھی ڈھکے چھپے الفاظ  میں مخالفت کرتا ہے اور کہتا ہے ہم سے زیادہ تو وہاں پر مسلمان رہ رہے ہیں جن سے ھم علیحدہ ھوئے ہیں اور وہ خوش و خرم ہم سے بہتر زندگی بسر کر رہے ہیں ہم نے چھوٹا سا خطہ جسے اپنے ملک کے لیے حاصل کیا تھا وہ سنبھال نہیں سکے تھوڑے ہی عرصہ بعد ہمارا ایک بازو ہم سے الگ ہو گیا اور وہ بھی اج معاشی ترقی میں ھم سےکہیں اگے ہے

میں ان نوجوانوں سے دست بستہ عرض گزار ھوں کہ ھمارے حکمرانوں سے بے شک بے شمار غلطیاں ھوئی ہیں جس کی وجہ سے ھماری معیشت کمزور ھو گئی ھے امن وامان کے مسائل کا سامنا ہے بنیادی ضروریات  صحت تعلیم رھائش خوراک کے مسائل ہیں جن کی وجہ سے ھمیں پریشانی رہتی ہے لیکن ھم آزاد ہیں آزادی کی قدر و قیمت پوچھنا ھو تو مقبوضہ کشمیر والوں سے پوچھو ہر سہولت ھونے کے باوجود آزاد نہیں انڈیا کے ان مسلمانوں سے پوچھو جو آزادانہ طور پر عبادات نہیں کر سکتے بھارت دنیا میں گائے کے گوشت کا بہت بڑا ایکسپورٹر ہے لیکن مسلمان گائے کی قربانی نہیں کر سکتا مسلمان وھاں پر صدیوں سے رہ رھا ہے لیکِن اس کی بچی باپردہ ھو کر کالج نہیں جاسکتی تعلیم حاصل نہیں کر سکتی

مسلمان وھاں کا شہری ہے لیکن سکیورٹی فورسز میں اس کی رسائی نہ ھونے کے برابر ہے ھاں وہ ھم سے زیادہ مال دار ہیں ان کا ملک چاند پر پھنچنے کی کوشش کر رھا ہے دنیا میں ان کا ایک مقام و مرتبہ ہے الغرض ھم ان سے بہت پیچھے ہیں لیکن  وہ اصل  آزادی کی نعمت سے محروم ہے اور ھم کلی طور پر آزاد ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں