باقی کیا بچا!

جمیل احمد
ٓٓٓٓٓآج اک سخی اور فیاض انسان کے بارے میں تحریر کر رہا ہوں جس نے ساری زندگی دینا سیکھاہے۔ یہ مہارت اس نے کہاں سے سیکھی، کوئی درسگاہ اس عمل کو سکھا سکتی ہے؟
یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
میں ان سے ملاقات کا احوال تحریر کر رہا ہوں
ان کا نام لئیے بغیر یہ مضمون لکھ رہا ہوں۔ ان سے ملاقا ت کا وقت اور جگہ ان ہی کے آفس میں صبح ۰۱ بجے طے ہوئی، جہاں وہ میرے پہنچنے سے پہلے موجود تھے۔میں نے سیکرٹری کو بتایا میری ملاقات طے تھی، سیکرٹری نے صاحب کا شیڈول دیکھا اور کہاکہ وہ آپ کا ہی انتظار کر رہے ہیں۔ سیکرٹری نے انٹرکوم میں بات کی فون رکھنے کے بعد مجھے اندر لے جایا گیا۔ جہاں وہ میرے لیے پہلے سے دروازے پر کھڑے تھے۔ اس گرم جوشی اور پر تپاک انداز میں میرا استقبال کیا کہ میں کچھ شرمندہ سا ہو گیا! اس بانکپن ملاپ نے احساس دلایا کہ یہ انسان صرف مال و متاع کی وجہ سے بڑا انسان نہیں ہے، بلکہ اس کا بڑا پن اس کے اخلاق سے جھلک رہا تھا۔مجھے اپنے سامنے موجود آرام دہ کرسی کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی اک سادہ مگر انتہائی نفیس ریوالونگ چیئر پر براجمان ہو گئے۔ میں کچھ دیر تک تو ان کے آفس کو دیکھ کر محو حیرت میں رہا، ان کا آفس دنیا کے یقینا کسی بہترین آرٹسٹ کا شاہکار تھا۔یہ بات میں کسی کم علمی یا ان سے متاثر ہو کر نہیں کر رہا۔ میں دنیا کے سب سے بہترین اور خوبصورت آفسس کے بارے میں مختلف میگزین میں پڑھ چکا ہوں۔

انکا آفس اگر نیویارک، ٹوکیو، سین فرانسسکو میں ہوتا تو ان کا آفس گوگل اور فیس بک ہیڈکوارٹر آفس(کیلیفورنیا)کے مقابلے کا مانا جاتا اور ریڈبل ہیڈکوارٹرآفس(آسٹریلیا) سے اچھا نہیں تو مقابلے کا ضرور تھا۔کرسی پربراجمان ہوکر میں نے پہلا سوال یہ کیا کہ اس اسٹیٹ آف دی آرٹ آفس کا آئیڈیاکس نے دیا۔ انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روکا اور مسکرا کے بولے جمیل صاحب آپ سانس تو بحال کر لیں۔ رسمی سے انداز میں چائے کا پوچھا پرمیرے کچھ کہنے سے پہلے خوبصورت میز پر رکھے وائرلیس سیٹ کا ریسیور اٹھایا اور پشتو زبان میں کچھ کہہ کر ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔

چند لمحوں کے لئے کمرے میں خاموشی رہی، میں نے سکوت کو توڑا اور بات کرنے کی اجازت مانگی ہی تھی کہ ایک پر تعیش چائے کی ٹرالی آفس میں داخل ہو چکی تھی۔ چائے کو بڑی نفاست سے ٹی کوزی میں لایا گیا تھا، اٹالین کراکری میں مزیّن کوکیزاور سینڈوچز اپنی مثال آپ تھے۔ چائے کا سپ لیتے ہوئے میں نے سوال دہرایا، اس ترقی، کامیابی اور اسٹیٹ آف دی آرٹ آفس اور شان بان کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما ہیں؟
کچھ دیر درود شریف دہرانے کے بعد دھیمے لہجے میں بولے! جمیل صاحب آپ نے پاؤ لو کویلہو (برازیلین مصنّف) کی کتاب الکیمسٹ پڑھی ہے؟ میں نے منہ میں موجود بسکٹ جلدی سے نگلتے ہوئے بڑی مشکل سے جی ہاں کی آواز نکالی۔ کیونکہ یہ ناول میرا پسندیدہ ناولوں میں سے ایک ہے۔ اس کتا ب کو اسّی (۰۸) سے زیادہ زبانوں میں ترجمے کئے گئے ہیں۔
انہوں نے ایک
ترجمہ: جب کسی چیز کو شدت سے چاہو تو تمام کائنات، تمہاری کامیابی میں مددگار ثابت ہو جاتی ہے۔پورا ناول پڑھنے کے باوجود مجھے لگتا تھا کہ یہ جملہ صرف کسی انڈین مووی میں شاہ رخ خان کا ڈائیلاگ ہے، جبکہ یہ جملہ اس فلم سے بہت پہلے الکیمسٹ کتاب کی زینت بن چکا تھا۔میں ابھی انکی علمی گفتگو سے متاثر ہونے ہی والا تھا کہ انھوں نے وہیں سے بات شروع کردی! یہ بیسویں صدی کے مصنّف اس کائنات کے بنانے والے کو نہ پہچان سکے۔ کائنات ایسے ہی نہیں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

یہ کہنے کے بعد قاری مشاری الشافی کی آواز میں سورہ المومن کی آیت تلاوت کی!(وقال ربّکم ادعونی استجب لکم۔ صدق اللہ العظیم) اور فرمایا مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرتا ہوں۔ میرا ربّ تو شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ میں اپنی تمام گزارشات اللہ پاک کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ اور میری گزارشات قبول ہوں نہ ہوں، بس میرا کام اتنا ہی ہے۔ اور اس کے بعد اپنے بنائے ہوئے مقاصد کے حصول کے لئے محنت شروع کر دیتا ہوں۔ اب اللہ کائنات کے کس حصّہ یا ذرّے کو میرے لئے مددگار بناتا ہے یہ میرے سوہنے ربّ کا کام ہے۔اگر کامیابی مل گئی تو شکر اور کسی وجہ سے ناکام بھی ہوئے تو اس میں صبر، یہ دونوں چیزیں اللہ کو بہت پسند ہیں۔

میری د ا ہنی ٹانگ سن ہو چکی تھی مگر ان کی گفتگو میں اتنا محو تھا کہ دیہان ہی نہیں رہا، وہ بھی پہلو بدلتے ہوئے ستائشی لہجے میں کھنکھارے اور گویا ہوئے! کامیابی کے لئے کوئی سائنس نہیں چاہئیے، میں ایک واقعہ سناتا ہوں۔حضرت موسیٌٰ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لئے کوہ طور میں جایا کرتے تھے۔ ایک دن راستے میں ایک فقیر حال شخص ملا اس نے کہا اے موسیٌٰ آپ کوہ طور پر اللہ تعالیٰ سے سفارش کرو کہ میں بھوک و افلاس زدہ ہوں، میرے لئے اس دنیا میں جو رزق متعیّن ہے وہ یک مشت کیوں نہیں دے دیتا۔ روز روز کے مسائل رزق سے تنگ ہوں۔ جب موسیٌٰ کی طور پر اللہ کریم سے ملاقات ہوئی تو اللہ پاک نے دریافت کیا اے موسیٰ ٌ تیرے پاس میری ایک امانت ہے، وہ امانت جو ایک مفلس نے دی تھی کے اپنے ربّ تک پہنچا دو۔

موسیٌٰ نے فرمایا، وہ شخص مفلسی سے تنگ آکر اپنا رزق یک مشت مانگ رہا تھا۔اللہ پاک نے فرمایا جاؤ اسے رزق کے خزانے اس کی دہلیز پر انڈیل دئے گئے ہیں۔موسیٌٰ واپسی ہوئے تو دیکھا وہ شخص انتہائی مطمئن ہے۔ موسیٌٰ نے خیال کیا کے اس نے اپنی زندگی بھر کا رزق ایک ساتھ مانگ تو لیا ہے مگر اب اس سے کتنا کھایا جائے گا اور کتنا سنبھالا جائے گا۔جمیل صاحب کچھ عرصہ بعد موسیٌٰ کا پھر کوہ طور جاتے ہوئے اسی مقام سے گزر ہوا، کیا دیکھتے ہیں وہ شخص رزق کی فراوانی کے ساتھ آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ بلکہ لوگوں کاایک ہجوم ہے جو اس کے ہجرے سے رزق لے رہے ہیں۔ تعجب بھی ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں عرض کی اے پروردگار جب تو نے اس مفلس شخص کو اس کی حیات کا مکمل رزق یک مشت دے دیا تھا تو اس کا رزق اب تک ختم ہوجانا چاہئے تھا؟ مگر آج میں نے اس شخص کو بہت مالامال پایا،وہ بہت سخی اور غنی ہو چکاہے۔جمیل صاحب اللہ پاک کے جواب میں آپ کو سارا کھیل سمجھ آجائے گا۔

میں پھر سے پہلو بدل کر ہمہ تن گوش تھا۔ وہ کرسی سے کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے، اللہ پاک نے فرمایا اے موسیٌٰ، دیا تو میں نے اسے اس کا رزق سارا کا سارا یک مشت تھا، مگر اس شخص نے میرے ساتھ تجارت کر لی، جو رزق میں نے اسے دیا اس نے اسے جمع کرنے کے بجائے بانٹنا شروع کر دیا، اس نے وہ عطاکیا ہوا رزق غریب و ناداروں کو بانٹنا شروع کر دیا۔ اس نے میرا دیا ہوا رزق میرے بندوں کو تقسیم کر دیا جو اپنا رزق تقسیم کرتا ہے تو میں اس کا رزق ضرب کر دیتا ہوں، اس نے میرے ساتھ تجارت کر لی، جو شخص مجھ (اللہ)کے ساتھ تجارت کرے میں اسے کیسے نقصان ہونے دے سکتا ہوں۔ایک بار پھر گلا کھنکھارتے ہوئے بولے، پاؤلو کوہلیو اس خالق کائنات کو پہچانتا ہی نہیں ہے۔

میں نے پانی کا گلاس اٹھایا اور اپنا حلق تر کرنے لگا۔ایک بار پھر گلا کھنکھارتے ہوئے بولے، پاؤلو کوہلیو اس خالق کائنات کو پہچانتا ہی نہیں ہے۔میں نے پانی کا گلاس اٹھایا اور اپنا حلق تر کرنے لگا! اپنے خالق کے بارے میں اتنا پکا عقیدہ اور نظریہ بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے۔ میں نے گلاس رکھتے ہوئے پوچھا! کچھ تو ہے جو اللہ پاک نے کائنات کے نظام میں کار فرما چیزوں اور انسانوں کو بے کار چیزوں اور انسانوں پر ترجیح دی ہے۔ آپ کائنات کے نظام میں خلل ڈالنے کے بجائے مددگار ثابت ہوں پھر دیکھیں دنیا اور آخرت میں فلاح ہی فلاح۔آپ کو پتہ ہے درخت کے تنے کو جنّت کی بشارت دی گئی تھی۔ وہ کھجور کے درخت کا تنا تھاجس سے ٹیک لگا کر محمّدٌ درس و تدریس کیا کرتے اور ممبر کی جگہ استمعال کرتے۔ اس کو کاٹ کر ممبر تعمیر کیا جا رہا تھا تو وہ درخت چیخ چیخ کر رویا۔

آنحضورٌ نے آواز سنی تو اسے دلاسا دیا کے تم میرے ساتھ جنت میں رہو گے۔ یہ سننا تھا کہ وہ درخت چپ ہو گیا۔وہ درخت دین کی تبلیغ میں مددگار تھا، گیا بھی تو ایک بشارت کے بعد۔ آپ خدا کے بندوں کی مدد کرتے رہیں اور اس نظام کائنات کی مدد کرتے رہیں اللہ آپ کو اپنے خزانوں میں سے خوب عطا کرے گا۔میں نے فوراً سوال پوچھ لیا، آپ نے کونسی تجارت کی ہے اللہ سے؟جمیل صاحب میں نے چھوٹے چھوٹے کئی اکاؤنٹ کھول رکھے ہیں، بے شک یہ بھی اللہ کی مدد سے ہی ہو سکے۔آپ سے پوچھے بغیر نہیں جاؤں گا، اب میرے میں تشویش کے ساتھ بے چینی کا عنصر بھی بیدار ہو چکا تھا۔جمیل صاحب آپ کے اسرار پر ایک کا ذکر کئے دیتا ہوں! کورونا وائرس بیماری کے ساتھ ساتھ ایک خوف کی علامت بن چکا تھا۔ کاروبار بند ہو رہے تھے۔ لوگ اپنی زندگی اور بچا کھچا سرمایہ بچانے کے لئے کاروبار بند کر رہے تھے۔ بیروزگاری عروج پر ہو چکی تھی۔ میں بھی اس معاشرے کا حصہ ہوں، ایک سال اپنے گھر بیٹھے ورکرز کو تنخواہیں دے دے کر بنک بلنس زیرو ہو گیا تھا، کاروبار ڈیفالٹ ہونے کو تھا تو ارادہ کیا کے تمام ملازمین سے معذرت کر لوں اور کاروبار وائنڈاپ کر دوں۔

اسی شش وپنج میں تھا کہ ایک ورکر کی اہلیہ نے فون کیا کہ میرے شوہرکو کورونا سیزن کے دوران کینسر کی تشخیص ہوئی ہے۔اس دھرتی میں ہم رشتہ دار اپنے پرائے سب کو دیکھ چکے۔ ہم اور ہماری فیملی اللہ کے بعد بس آپ کی طرف دیکھتے ہیں۔ آپ کے ہم پر بہت احسانات ہیں، ایک سال سے ہمارا کچن آپ کی بدولت چل رہا ہے۔ میرے بچے اللہ کے بعد آپ کے ہی شکر گزارہیں۔ اللہ نے آپ کو ہمارے لئے وسیلہ بنا یا۔ ایسے ہی چند ادھورے جملے کہے تھے اس ماں نے، اس بیوی نے، اس بہن نے۔ جمیل صاحب اس رات میں تہجّد کی نماز میں سجدہ ریز ہوا اور اللہ سے دیر تلک فریاد کی اے میرے مالک تیرا وعدہ ہے تو اپنے سے تجارت کرنے والوں کو نقصان میں نہیں چھوڑتا، تجھ سے التجا ہے کہ میرے بازوؤں میں طاقت دے کہ میں تمام ملازمین اور ان کی فیملیز کا مددگار رہ سکوں۔

تو نے انہیں رزق تو دینا ہی ہے، اس خدمت کے لئے مجھ جیسے گناہ گا ر کو چن لے۔ اور پھر صبح اٹھ کرڈوبتا ہوا کاروبار بند کرنے کے بجائے اپنی زاتی اور آبائی پراپرٹیز فروخت کرنا شروع کر دیں۔ اس کام میں میرے بھائی اور بہنوں نے میرا بھرپور ساتھ دیا۔ ایک گھر بیچا اور چند مہینے ملازمین کی تنخواہیں اور آفس کے اخراجات چلائے، پھر دوسری اور پھر تیسری پراپرٹی بکتی چلی گئی۔ پراپرٹی بکتی رہی ملازمین کے کچن چلتے رہے، میں اللہ سے مدد کی دعا کرتا رہاتا کہ میرے حوصلے پست نہ ہو جائیں۔پھر آپ کے ساتھ کیا ہوا میں بے چینی سی کیفیت میں ٹوک بیٹھا۔میں آگے اپنی تجارت کے بارے میں بتانے سے پہلے اشفاق صاحب (مصنّف)سے اقتباس ایک بات سنانا چاہتا ہوں۔ اشفاق صاحب لکھتے ہیں کہ میں بابا جی کے ساتھ رکشے میں کہیں سے لوٹ رہا تھا رکشے سے اترنے لگے تو رکشے والے کو پیسے دیے۔

اس کے کوئی تین روپے اسّی پیسے بنتے تھے، میں نے اسے چار روپے دے دیئے، رکشہ والا سمجھا میں نے بڑا معرکہ مارا ہے۔ تو بابا جی نے پوچھا پتر پیسے دے دیتے؟ میں نے کہا دے دیئے۔ کہنے لگے کتنے دیتے؟ میں نے کہا چار روپے، تو کہنے لگے کیوں؟ میں نے کہا اسکے تین روپے اسی پیسے بنتے تھے میں نے اسے چار روپے دے دیئے۔ انہوں نے کہا پنج (۵) دے دینے سی۔ میں نے کہا پانچ؟ کہنے لگے تسی وہ تا دتے وچوں دینے سی، تسی کہڑے پلیوں دینے سی(یعنی، تو نے اللہ کے دیئے پیسوں میں سے دینا تھے، کون سے اپنی جیب سے ادا کرنے تھے)
جمیل صاحب یہ ایک بہت بڑا فلسفہ ہے، اسکے چکر میں جو آگیا وہ دنیا میں تو اسکے لئے مال سنبھالنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ پیسہ کہاں کہاں سے آئے گا مت پوچھو۔جمیل صاحب کورونا وائرس ختم ہوا، کاروبار زندگی بحال ہونا شروع ہواہی تھا اور میں اپنی ذاتی آخری لاہور کی پراپرٹی بیچنے جا رہا تھا کہ میرے کزن انگلینڈ سے فون آیا کہ بھائی جان آپ کے(۰۰۰۰۴) پاؤنڈز میرے پاس امانت رکھے ہیں۔ آپ کو کیسے پہنچاؤں، اس کا فوں انگلینڈ سے ہی آیا تھا۔ میں نے کہا رہنے دہ وہ میں نے اپنی خوشی کے لیے کہا تھا ،کہنے لگا کہ اب میرے پاس الحمدللہ اتنا ہے کہ میں یہ واپس ضرور کرنا چاہوں گا۔جب میں نے یہ پیسے دیے تھے اس وقت تھوڑی یورش تھی، پاونڈزصرف۵۷ روپے کے قریب تھا جب اس نے فون کیا تو ڈالر ۰۰۳ کے قریب تھا۔اس (۰۰۰۰۴ پاؤنڈز) کی پاکستانی مالیت ایک کروڑ بیس لاکھ کے قریب تھی۔اور نہ جانے کہاں کہاں سے آمدنی آنی شروع ہے کہ میں گھبرا گیا یہ جو دیے میں سے دینا ہے نہ،یہ بہت خطرناک ہے۔اشفاق احمد ایسا فلسفہ دے گْے،حصرت موسٰی ؑایسا کلیہ سمجھا گءٗے۔ دتے میں سے دیتے رہو اور اللہ پاک سے تجارت کر لو!یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی وادی میں آپ اپنا نام پکاریں،وہ آواز کئی مرتبہ پلٹ کر آتی ہے،یہ بازگشت لوٹ کر واپس ضرور آتی ہے۔

اللہ پاک کا نظام بہت ہی عجیب نظام ہے۔جو بانٹ دیتے ہو وہی بچ جاتا ہے۔میں بالکل غور سے ایک ایک جملے کی سچائی میں محو ہو چکا تھا۔مگر اس آخرے جملے نے مجھے چونکا دیا۔ سر یہ آخری بات کا کیا مطلب ہے جو بانٹ دیتے ہو وہی بچتا ہے۔یہ تو صحیح ہے کہ اللہ سے تجارت کا فائدہ ہی فائدہ ہے مگر دیا ہوا کیسے بچ جاتا ہے۔ایک بار پھر درود شریف کا ورد ہوا اور توقف کے بعد فرمانے لگے!حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے رسول اکرمٌکے گھر والوں نے بکری ذبح کی اور دستی یا کندھے کے علاوہ سب تقسیم کر دیا۔ رسولٌ نے پوچھا کہ اس بکری میں سے کچھ ہے؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ صرف کندھے کا گوشت ہے باقی سب تقسیم کر دیا۔

آپ ٌ نے فرمایا کندھے کے گوشت کے سوا سب باقی ہے (یعنی جو کچھ اللہ کے لئیے تقسیم کردیا درحقیقت وہی باقی ہے (جامع ترمذی)حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہیں سے آرہے تھے اک انار خرید کر، راستے میں اک فقیر ملا اور بولا بہت بھوکا ہوں کھانے کو کچھ نہیں، آپ نے وہ اکلوتا انار اس فقیر کو دے دیا، ابھی گھر آئے ہی تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی حضرت علی نے پوچھا کون؟ جواب آیا بلال، آپؐ نے آپ کے لئے انار بھیجے ہیں۔ حضرت علی نے انار گنے وہ ۹ (نو) تھے، آ پ نے فرمایا بلال یہ لے جاؤ یہ میرے نہیں ہیں۔ اگر یہ میرے ہوتے تو پورے دس ہوتے۔ غلام ِرسولؐ مسکرائے اور جیب سے ایک اور انار نکا ل کر دیا اور فرمایا آپؐ نے مجھے پورا واقعہ سنا دیا تھا میں تو بس دیکھنا چاہتا تھا کہ آپ کیا جواب دیں گے۔

ایک کے بدلے دس کا وعدہ اللہ نے کیا ہے آپ کا توکل سناتھا آج دیکھ بھی لیا اور غلامِ رسولؐ یہ کہہ کر واپس ہو لئے۔عجیب کرشمہ ہے جو بانٹ دیا وہ بچ گیا مگر جو رکھ لیا وہ استمعال ہوا۔یہ کوئی”پولہو کوہلیو“، کوئی ”رابرٹ کیواسکی“ کوئی ”آئن اسٹائن“ نہیں بتا ئے گا۔۔ وہ یہ جملہ کہنے کے بعد خاموش ہو گئے، میرے ساتھ ان کی آنکھیں بھی بھیگ چکی تھیں۔مجھے ان کی دینِ اسلام کے بارے میں معلومات اور سائنس فکشن سے لگاؤ دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ دین و دنیا کا ایک مکمل پیکج ہیں۔ اپنی تمام تر معلومات کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں ابھی طفلِ مکتب ہوں۔ خیر ہچکچاتے ہوئے اجازت لی اور ان کے ساتھ سفر کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا، جسے انہوں نے خندہ پیشانی سے قبول کر لیا۔ قارئین کے لئے اس سفر کی روداد ضرور تحریر کروں گا اور ان سے اجازت ملی تو نام بھی۔۔۔۔۔۔(باقی کیا بچا،

اپنا تبصرہ بھیجیں