145

کنٹونمنٹ انتخابات:پی ٹی آئی شکست کیوجہ مہنگائی یا کچھ اور؟

تحریر:مسعود جیلانی

پاکستان تحریک انصاف حالیہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں راولپنڈی اور لاہور سمیت پنجاب میں کئی جگہوں پر شکست سے دوچار ہوئی عوام کا ایک مخصوص طبقہ اس کی وجہ مہنگائی کو قرار دے رہا ہے اگر مہنگائی کی وجہ کو درست مان لیا جائے تو جہاں سے پی ٹی آئی کو کامیابی ہوئی کیا وہاں لوگ مہنگائی ہونے پر مطمئن تھے یا ان علاقوں میں مہنگائی نہیں تھی ان دونقاط سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شکست کی وجہ مہنگائی نہیں تھی اصل وجوہات کا پتا چلانے کیلئے میں اس حلقہ انتخاب کاجائزہ پیش کر رہا ہوں جس کا میں خود ووٹر ہوں یقینی طور پر باقی پنجاب میں بھی ملتی جلتی صورتحال ہو گی میرا اپنا تعلق حلقہ این اے59سے ہے جس کے ایم این اے پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے غلام سرور خان ہیں گذشتہ 30سال سے زائد عرصہ سے اس علاقہ پر چوہدری نثار علی خان کی حکومت تھی ان کی ہر بات حرف آخر ہوتی یہاں تک کہ ووٹر اپنا مطالبہ بھی ان کے سامنے نہ رکھ سکتا اگر کوئی ڈیمانڈ کرتا تو چوہدری صاحب ڈانٹ دیتے کہ تم چھوڑو مجھے بہتر پتا ہے کہ علاقے میں کونسا کام کرنا ہے اس لئے ووٹر کو یہی سمجھ آتی تھی کہ اس کا کام صرف چوہدری صاحب کو ووٹ دینا ہے اس عرصہ میں ان کے حلقہ انتخاب میں مافیاز نے چوہدری صاحب کی خوشامدیں کر کے اوران کی شان و شوکت کیلئے خرچے کر کے خوب ترقی کی ان مافیاز سے تنگ لوگ چوہدری نثار علی خان سے جان چھڑانے کے لئے جدو جہد کرتے رہے الیکشن 2013میں کرنل اجمل صابر راجہ اور راجہ بشارت کے ووٹ آپس میں تقسیم ہونے سے جدوجہد کرنے والوں کی کوششیں پھر ناکام ہوئیں تو الیکشن 2018میں پی ٹی آئی نے غلام سرور خان کو تجربہ کار سیاستدان کے طور پر میدان میں اتار دیا کرنل اجمل صابر اجہ اور راجہ بشارت کے گروپوں کوبھی اکٹھا کیا گیا کارکن پوری جانفشانی سے الیکشن لڑے جس کے نتیجے میں ان جدوجہد کرنے والوں کو چوہدری نثار سے جان چھڑانے میں کامیابی ہوئی اور غلام سرور خان اس حلقہ کے ایم این اے منتخب ہو گئے غلام سرور خان کی اس کامیابی پر اب انھیں ایک سیٹ چھوڑنا تھی اس ضمن میں حلقہ این اے59سے پندرہ رکنی وفد غلام سرور خان سے ملنے گیا جس کا مقصد اس کامیابی کو دیر تک قائم رکھنا تھا میں بھی اس وفد کا حصہ تھا وہاں ہماری لگ بھگ ڈھائی گھنٹے کی طویل ملاقات غلام سرور خان سے ہوئی وفد نے غلام سرو خان کے آگے یہ بات رکھی کہ دونوں حلقوں کی بڑی طاقتوں میں غلام سرور خان اور راجہ بشارت صاحب اسمبلیوں میں پہنچ چکے ہیں اب کرنل اجمل صابر راجہ کے لئے کون سی جگہ ہو گی جس کے باعث حلقہ کا یہ اتحاد واتفاق قائم رہے غلام سرور خان نے کہا کہ سیٹ چھوڑنے کے سلسلے میں ان سے پارٹی قائد عمران خان نے مشورہ مانگا تھا جس میں انھوں نے مشورہ دیا کہ اگر حلقہ این اے59کی سیٹ چھوڑی تو دوبارہ جیتنا مشکل ہو گا اور حلقہ این اے63 میں ان کے خاندان کے علاوہ کوئی دوسرا آدمی نہیں جیت سکتا جس پر عمران خان نے معاملہ غلام سرور خان پر چھوڑ دیا وفد نے کرنل اجمل صابر راجہ کی ایڈجسمنٹ کے بارے میں بات کی تو سرور خان نے محترم صدیق خان مرحوم کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح ان کی اچانک وفات ہو گئی ہے اگر خدانخواستہ اس طرح کا کوئی معاملہ ہوتا ہے تو کرنل اجمل کے لئے جگہ بن سکتی ہے وفد مایوس ہو کر واپس آ گیا اس کے بعد حلقہ میں کامیابی کے ثمرات پہنچانے کا وقت آ گیا غلام سرور خان کی جانب سے گاؤں گاؤں گلی گلی اور محلے کی سطح پر کرنل اجمل کے حامیوں کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے فوکل پرسنز اور کوارڈینیٹرز جیسے نام دے کر نئے لوگ سامنے لائے گئے اس موقع پر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے چوہدری نثار سے فائدے اٹھانے والے کئی مافیاز کے لوگ بھی شمولیت اختیار کرنے لگے نثار دور میں جدوجہد کرنے والوں کو کامیابی کے بعد غلام سرور خان بھی چوہدری نثار کے روپ میں ہی نظر آنے لگے یعنی جس پتھر کے صنم کو پی ٹی آئی کے کارکنوں نے خود تراشا تھا وہ بھی بت خانے میں پہنچتے ہی ان کیلئے بھگوان بنا بیٹھا تھا حلقہ این اے 59میں پی ٹی آئی گروپوں میں تقسیم ہو گئی غلام سرور خان کی جانب سے بھاری منصوبے بھی دئیے گئے ان سے فائدہ اٹھانے والے مافیا زتو بہت تھے لیکن ان پر تالی بجانے والاکوئی نہیں تھا اگر حلقہ این اے59میں کوئی ایسا الیکشن ہوتا تو نتیجہ اس سے بھی برا ہوتا یقیناً ٹیکسلا، واہ کینٹ اور باقی حصوں میں بھی حالات یہی ہوں گے کیونکہ یہ لوگ الیکٹ ایبلز ہیں اور الیکٹ ایبلزکو پارٹی نہیں اپنے ساتھ وابستگی والے لوگوں کی پروا ہ ہوتی ہے عمران خان جو اپنی ماضی قریب کی تحریک میں جس طرح مجمع اکٹھا کرنے کا ودعویٰ کرتے رہے ہیں اب اگر کبھی انھیں ایسا کرنا پڑ جائے تو مشکل ہو سکتا ہے اس لئے مہنگائی نہیں یہ وجوہات تھیں جو پنجاب میں پی ٹی آئی ی کی شکست کا باعث بنیں جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ غریب نے مہنگائی سے تنگ آ کر ووٹ نہیں دیاغریب بیچارہ تو ان مافیاز کے ہاتھوں صرف ایک آٹے کا تھیلا اور گھی کا ڈبہ لے کر ووٹ دے دیتا ہے پھر پانچ سال تک صرف بد دعائیں دے کر گذارہ کرتا ہے پی ٹی آئی اب بھی اگر اپنے کارکنوں میں اتحاد قائم نہیں کر سکتی تو بلدیاتی کیا جنرل الیکشنزمیں بھی ایسے نتائج آ سکتے ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں