96

کسان کھادیں، بیج، مہنگےخریدنے پر مجبور

تحریر چوھدری محمد اشفاق
افسوس کہ ملک پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود اس کے کسان بدحالی کا شکار ہیں کسی بھی حکومت نے آج تک کسان کو خوشحال بنانے کیلیئے کوئی مناسب اقدامات نہیں اٹھائے ہیں کسان سب کچھ اپنی مدد آپ کے تحت کر رہے ہیں اس وقت گندم کی بجائی کا کام جاری ہے گندم کی بجائی کے وقت ڈی اے پی کھاد کا استمعال بہت ضروری سمجھا جاتا ہے زیادہ تر کاشتکار ایف ایف سی کمپنی کی کھادوں کو ترجیح دیتے ہیں ڈپٹی کنٹرولر فرٹیلاٗئزرز راولپنڈی کی طرف جاری کردہ آخری پرائس لسٹ کے مطابق سونا ڈی اے پی فی بوری کی قیمت 12815/-اور ایف ایف سی ڈی اے پی فی بوری کی قیمت 12482/- روپے مقرر کی گئی ہے ایک تو حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے کھاد کے ریٹس پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہے ہیں دوسرا کوئی بھی کھاد ڈیلر کھادیں سرکاری ریٹ پر فروخت نہیں کر رہا ہے کسی بھی کاشتکار سے دریافت کر یا جائے تو کوئی ایکی بھی ایسا نہیں ملے گا جو بتا سکے کہ اس نے کھاد سرکاری ریٹ پر خریدی ہے کسان بلکل مر چکا ہے وہ مہنگا بیج خرید کر مہنگی کھادیں ڈال کرکاشتکاری کر رہے ہیں زرعی پرائس مجستریٹس صرف اپنے ٹارگٹس پورے کرنے کیلیئے کھاد ڈیلرز کو جرمانے کرتے ہیں کاشتکار کا مسئلہ زرعی ڈیلرذ کو جرمانے کروانا نہیں ہے اس کا مسئلی کھادیں و بیج سرکاری ریٹ پر خریدنا ہے جو کے بلکل نہیں ہو رہا ہے صرف تحصیل کلرسیداں کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو دعوئے سے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی ایک بھی کھاد ڈیلر کھادیں سرکاری ریٹ پر فروخت نہیں کر رہا ہے سرکاری ریٹس اور ہیں جبکہ مارکیٹ ریٹس مختلف ہیں نہ جانے اس ملک کے قانون ساز ادارے کیوں خاموش تماشائی بنئے ہوئے ہیں وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کیوں نہیں کر رہے ہیں ایک کسان جب کھاد مہنگی خریدتا ہے یعنی اس کو کھاد سرکاری ریٹ پر نہیں مل رہی ہے تو پہلی بات یہ ہے کہ وہ حالات کے تقاضا کے مطابق اور ناقص نظام کے خوف کی وجہ سے اپنی شکایت کرنے کی جرآت ہی نہیں کر تا ہے اگر غلطی سے کہیں کوئی شکایت کر بھی دے تو بجائے خریدار کسان کو ریلیف دلوایا جائے بلکہ اس متعلقہ زرعی ڈیلر کو صرف جرمانہ کر دیا جاتا ہے باقی کسان نے جو مہنگی کھاد خریدی اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے کسان کی شکایت اپنی جہگہ برقرار رہتی ہے یہ بات بہت افسوس کے ساتھ کہنی پڑتی ہے کہ کھاد ڈیلر کو کوئی بھی ادارہ اس بات پر مجبور یا پابند کرنے کو تیار نہیں کہ کھاد سرکاری ریٹ کے مطابق فروخت کی جائے کاشتکار کا مسئلہ جوں کا توں ہی رہتا ہے اس کے بعد اگلا مرحلہ بجائی کا شروع ہو جاتا ہے جس کیلیئے کاشتکار کو ٹریکٹر کی ضرورت پڑتی ہے ٹریکٹرز کے ریٹ بھی آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں اس وقت بجائی کا ریٹ کم از کم تین ہزار روپے فی گھنٹہ ہے اور بعض علاقوں میں اس زائد بھی لیا جا رہا ہے ڈیزل پیٹرول مہنگے ہوئے ریٹ بڑھائے گئے ڈیزل پیٹرول سستے بھی ہو گئے لیکن ٹریکٹرز کے ریٹس اپنی جہگہ برقرار ہیں کسی بھی سرکاری ادارے کی جرآت نہیں ہے کہ وہ ٹریکٹرز مالکان کو کسی نظم و ضبط کا پابند کرے بات ناقص سسٹم کی چل رہی ہے یہاں پر اس سسٹم کی ایک اور واضح مثال دینی ضروری سمجھتا ہوں راقم نے ٹریکٹرز کے ریٹس کے حوالے دو مرتبہ سابق اسسٹنٹ کمشنرز کلرسیداں رمیشاء جاوید اور دوسری مرتبہ ملک اعجاز اعوان کے سامنے بھی پیش کیا ہے لیکن حیرانگی و پریشانی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب یہ جواب ملا کہ ٹریکٹرز کے ریٹس مقرر کرنا ان کے اختیارات میں شامل نہیں ہے یہ کتنے بڑے افسوس کی بات ہے کہ ایک اسسٹنٹ کمشنر جو اپنی تحصیل کے اندر سیاہ سفید کے مالک سمجھے جاتے ہیں ایک ٹریکٹر والا ان کے دائرہ کار سے باہر ہے وہ اسسٹنٹ کمشنر اپنی تحصیل کے غریب کاشتکاروں کو ریلیف فراہم کروانے میں ناکام ہے حالالنکہ یہ کام کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے اسسٹنٹ کمشنر اگر چاہے تو یہ کام صرف چند گھنٹوں میں انجام دیا جا سکتا ہے تحصیل ٹریکٹر یونین کے نمائندوں کی میٹنگ کال کی جائے تحصیل کی ساری انتظامیہ ایک ساتھ بیٹھے ٹریکٹر یونین سے مشاورت کی جائے اور مناسب سرکاری ریٹ طے ہو سکتے ہیں ان کو صرف ایک وارننگ جاری کی جائے کہ جو ٹریکٹر مالک مقرر کردہ سرکاری ریٹ سے زائد وصول کرے گا اس کا ٹریکٹر جب کبھی بھی روڈ پر دیکھا گیا تو اس کو بند کر دیا جائے گاریٹ کیسے طے نہیں ہوتے ہیں لیکن بات پھر اسی طرف چلی جاتی ہے کہ ہمارے قانونی سسٹم میں اتنی طاقت ہی نہیں ہے کاشتکار کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے اگر وہ اپنی زمینیں کاشت کر رہے ہیں توصرف اس وجہ سے کہ انہوں نے اگر اپنی زمین بنجر بنا دی تو لوگ کہیں گئے کہ اس نے اپنے باپ داد کی زمین کو بنجر بنا دیا ہے صرف اسی خوف کی وجہ کاشتکار اپنے نظام کو چلائے ہوئے ہیں کاشتکار جب مہنگی کھاد، بیج خرید کرجمع تفریق کرتا ہے تو اس کو جواب صفر میں ملتا ہے ہمارا کاشتکار ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ کھاد ڈیلر کسی کے کنٹرول میں نہیں ہیں ٹریکٹر والے کسی کے کنٹرول میں نہیں بیج زرعی ادویات والے کسی کے کنٹرول میں نہیں ہیں وہ کس کے سامنے اپنا رونا روئیں حکومت کو اس بات کا سختی سے نوٹس لینا چاہیئے مقامی سرکاری انتظامیہ کو اس حوالے سے سخت ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ کھاد ڈیلرز،زرعی ڈیلرز اور ٹریکٹر مالکان کو سرکاری ڑیٹس کا پابند بنانے میں اپنا کردار ادا کرے نیز حکومت کو کسان دوست پالیسیوں کا اعلان کرنا چاہیئے جس کے تحت کسان کو کھاد،بیج،زرعی ادویات اور ٹرکٹرز کے سستے ریٹ مل سکیں حکومت کو کسانوں کی سرپرستی کرنا ہو گی تا کہ کسان مزید تباہی سے بچ سکے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں