96

چانن دین کے گھرانے کی داستان

گزشتہ پنڈی پوسٹ شمارہ میں تحصیل کلرسیداں کے گاؤں اراضی پنڈ میں رہائش پزیر واحد گجر گھرانے کے قیام پاکستان سے قبل خاندانی پس منظر اور انکی حالات زندگی کے حوالے سے تحریر شائع ہوئی تھی آج اس خاندان کی ہجرت کے حوالے سے موجودہ پاکستان میں آبادکاری اور انکی بقیہ زندگی کے احوال کے بارے میں تحریر کی دوسری قسط قارئین کے گوش گزار کرناچاہتا ہوں، مملکت خداداد پاکستان کے قیام کے بعد میاں کالوخان کے بیٹے اور مولا بخش کے بھائی میاں صدر دین، میاں چنن اور انکے صاحبزادے شرف دین پٹیالہ سے نقل مکانی کرکے چند دیگر اشخاص کے ہمراہ بھوکے پیاسے ہندوؤں اور سکھوں سے جان بچاتے واہگہ اٹاری بارڈر سے لاہور کے والٹن کیمپ پہنچے پھر لودھراں اور بعد ازاں آپ کو ضلع راولپنڈی تحصیل کہوٹہ موجودہ تحصیل کلرسیداں کی یونین کونسل بشندوٹ کے گاؤں اراضی پنڈ منتقل کر دیا گیا یہاں پہنچنے کے بعد چنن دین کو معاشی مسائل نے گھیرے میں لے لیا مگر آپ نے ہمت نہ ہاری اور خاندان کی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے محنت مزدوری شروع کردی اور بطور مزدورکلرسیداں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی بنیادیں کھودنے کا کام کیا تاہم یہ مشقت کی ساعتیں انکے لیے عارضی ثابت ہوئیں چونکہ آپ انڈیا میں وسیع زرعی زمین کے مالک تھے

کالم نگار کی دیگر تحریریں بھی پڑھیں

اس لیے کچھ عرصہ بعد چانن دین کو 587کنال زمین الاٹ ہوئی جبکہ نعمت اللہ خان کو چک مراڑی ضلع گوجرانولہ میں 142کنال زمین الاٹ ہوئی جسکی بنا پر معاشی مسائل حل ہونا شروع ہوگئے زمین کی الاٹمنٹ کے حوالے سے مقامی شخصیات قاضی غلام شاہ صاحب، قاضی حاجی محمد امین صاحب چوہدری عبدالمالک آف گاؤں ہدوالہ چوہدری نورمحمد اور ماسٹر افسر صاحب آف گاؤں عزیز پور گجراں آپکے معاون ومددگار رہے اسی دوران چوہدری عبدالمالک آف گاؤں ہدوالہ نے شرف دین ولد نعمت اللہ خان کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا کر اپنے پاس ہدوالہ لے گئے اور دو سال تک انکی پرورش کی کچھ عرصہ بعد نعمت اللہ اپنے بیٹے شرف دین کے ہمراہ چک مراڑی ضلع گوجرانولہ شفٹ ہوگئے تاہم بابا چنن دین اراضی پنڈ میں ہی مقیم رہے 21 مارچ 1957 کو نعمت اللہ کے بیٹے اور چانن دین کے پوتے شرف دین کی شادی ہوئی شادی کی تقریب گوجرانولہ میں منعقد ہوئی 1956 میں ہوشیار پور بھارت سے نقل مکانی کرنے والے نذیر، منیر اور طفیل جنھیں فوج میں بھرتی ہونے کی وجہ سے فوجی کہا جاتا تھا نے ایک منظم پلاننگ کے تحت چانن دین پر زائد از کلیم زمین رکھنے کا دعویٰ عدالت میں دائر کردیا مقدمے کا فیصلہ فوجیوں کے حق میں ہوا اور اراضی چوک تالاب کے احاطے میں ڈھول کی تھاپ اور بھنگڑا ڈال کر مقدمہ کا فیصلہ انکے حق میں آنے پر خوب جشن منایا گیا

چانن دین نے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کر دی اور لاہور ہائیکورٹ نے اپنے حکمنامے میں موضع بسنتہ اور اراضی کی زمین کا فیصلہ چانن دین کے حق میں سنا کر ان موضع جات میں چنن دین کی مالکیت اراضی بحال کر دی اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کو اس فیصلہ پر عملدرآمد کے بھی احکامات جاری کر دیے اس فیصلے کے تناظر میں نذیر، منیر اور طفیل آراضی پنڈ سے نقل مکانی کر گئے اس جھوٹے مقدمے میں وکلا کی فیس سفری اخراجات اور رشوت کی مد میں فوجیوں کی 68 کنال زمین ضائع ہوگئی، 1964 میں چانن دین نے بذریعہ بحری جہاز حج کی درخواست دی جو طویل العمری اور خرابی صحت کی بنا پر نامنظور ہوئی چانن دین نے 1966 میں اپنے بیٹے نعمت اللہ کو اراضی پنڈ واپس بلوا کر رہائش کیلیے مکان تعمیر کروایا اور یہی پر انہیں مستقل رہائش اختیار کرنے کی تلقین کی،چانن دین 19جنوری 1969کو نمونیہ کے عارضے میں مبتلا ہوکر اس دارفانی سے رخصت ہوئے وفات کے وقت آپکی عمر 127سال تھی میری تحقیق کے مطابق گاؤں اراضی کی تاریخ میں تاحال چنن دین سب سے طویل العمر وفات پانے والوں میں بطور ریکارڈ ہولڈر برقرار ہیں انکی قبر اراضی پنڈ کے قبرستان میں ہے بابا چانن دین مضبوط جسمانی ساخت اور لال سرخ چہرے کے مالک صحت مند شخصیت کے حامل اور دین سے گہرا شغف رکھنے والی مذہبی شخصیت تھے بابا چنن دین روزانہ صبح سویرے فجر کی نماز کے بعد اراضی پنڈ سے کچھ فاصلے پر واقع اپنے باغ میں چلے جاتے اور مغرب سے قبل واپس گھر تشریف لاتے انہوں نے ہجرت سے قبل بھارت کے شہر پٹیالہ میں غریبوں کیلیے لنگر خانہ قائم کر رکھا تھا جہاں مستحقین کو تین وقت کا کھانا بالکل مفت فراہم کیا جاتا تھا بابا چنن دین موضع اراضی اور بسنتہ میں سب سے زیادہ مالکیتی زمین رکھنے والے زمیندار تھے 1968 میں اٹلی سے ٹریکٹر درآمد کرنے کی درخواست دی اور آپکی وفات کے بعد1970 میں اٹلی سے ٹریکٹر منگوایا گیا

انہوں نے اپنی زندگی میں ادرک، شکر قندی، مونگ پھلی، خربوزے کاشت کیے اور اراضی خاص میں جدید زراعت کی بنیا ڈالی اپنے کھیتوں میں گنا اور تربوز کی کامیاب فصل اگائی،انکی ترغیب سے ہی بعد میں اردگرد کے زمینداروں نے بھی گنا کاشت کرنا شروع کیا بابا چنن دین آخری عمر تک صبراسثقامت اور دین پرکاربند رہے،اپکے بیٹے میاں نعمت اللہ خان نے گوجرانولہ میں سلسلہ چشتیہ نظامیہ کی بنیاد رکھی اور وہی مستقل رہائش اختیار کی آپ نے موضع اراضی و بسنتہ کی زمین فروخت کر کے تحصیل نوشہرو ورکاں ضلع گوجرانولہ میں زرخیز زرعی زمین خریدی اور خوب محنت کی 12ربیع الاول 23ستمبر 1991میں آپ نے گوجرانولہ میں وفات پائی اور وہی مدفون ہیں نعمت اللہ کے دو بیٹوں کے نام شہاب الدین اور شرف الدین تھے شہاب الدین لڑکپن میں وفات پا گئے تھے، شرف الدین کو نسلی اور چوٹی کے بیل پالنے کا بڑا شوق تھا آپ ہر سال بیل دوڑ کے مقابلوں کا انعقاد کراتے قیام پاکستان کے وقت آپکی عمر صرف 10 سال تھی آپکو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا آپ نے 11اپریل 1983میں خالق حقیقی سے جا ملے عصر رواں میں بابا چنن کے پوتے اور شرف دین کے بیٹے گوجرانوالہ میں 500کنال زرعی زمین کے مالک ہیں جہاں چاول گندم گنا،خربوزے،تربوز اور مختلف انواع و اقسام کی سبزیاں کاشت کیجاتی ہیں،بابا چنن دین کے تین پوتے جن میں بڑے بیٹے محبوب علی 18فروری 2016میں دل کے عارضہ میں مبتلا ہوکر جان فانی سے کوچ کر گئے تھے جبکہ محمد رمضان اور عمران علی ایڈووکیٹ آج تک باحیات ہیں اور یہ دونوں بھائی گوجرانوالہ میں اپنی زرعی زمینوں کی دیکھ بھال کے علاؤہ گاؤں اراضی پنڈ میں اپنی زمینوں کی دیکھ بال میں مصروف ہیں یہ گھرانہ آج بھی شرافت و ملنساری میں اپنی مثال آپ ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں