104

انتخابات کا اعلان‘ سیاسی نمائندے متحرک ہو گئے

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ابتدائی حلقہ بندیوں کے مطابق قومی اسمبلی کی نشستیں 272 سے کم ہوکر 266 ہوگئی ہیں جبکہ خیبرپختونخوا کے ضم اضلاع کی نشستیں 10 سے کم ہوکر چار تک محدود ہو گئی ہیں قومی اسمبلی کی 266 پنجاب اسمبلی 297 سندھ اسمبلی 130بلوچستان اسمبلی کی51 اور خیبرپختونخوا اسمبلی کی115 نشستوں پرحلقہ بندیاں مکمل ہوچکی ہیں۔سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو 8 فروری 2024 کو ملک میں عام انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کاحکم دے رکھا ہے الیکشن کمیشن نے بھی عدالتی حکم کے مطابق ملک میں 8 فروری 2024 کو انتخابات کے انعقاد کا نوٹی فیکیشن بھی جاری کر دیا ہے الیکشن کا بگل بجتے ہی مختلف سیاسی جماعتوں کے متوقع امیدواروں نے عوامی رابطوں کا آغاز کر دیا ہے خاص کر فوتگی پر تعزیت اور جنازہ میں شرکت سیاست دانوں کا معمول بن چکا ہے کیونکہ الیکشن کی آمد ہی وہ واحد موقعہ ہوتا ہے جب سیاست دان ایک عام آدمی سے بھی روابط کو فروغ دینے سے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا

الیکشن سے قبل امیدوار عوام کا تعاقب کرتے ہیں مگر الیکشن میں جیت کے بعد عوام وعدوں کی یادہانی کیلئے سیاستدانوں کا تعاقب شروع کر دیتی ہے مگر الیکشن جیتنے کے بعد جب اقتدار اور کرسی کا نشہ سرچڑھ کر بولتا ہے تو انکے تیور یکدم بدل جاتے ہیں انتخابات کے موقع پر امیدوار ایسی علاقائی شخصیات کو ساتھ ملا لیتے ہیں جو دیہات کی بڑی برادریوں کے کشیدہ تعلقات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور برادریوں کے مابین تقسیم کی لکیر کو مزید کھینچ کر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرتے ہیں جسکی اہم وجہ موجودہ دورمیں برادریوں کے اندرخانگی اختلافات اور رشتوں میں دراڑیں بھی اہم وجہ ہے جسکی بدولت برادریوں کا اجتماعی ووٹ منقسم ہو جاتا ہے کامیابی کے بعد امیدوار اپنی حمایت یافتہ برادری کو فائدے پہنچاتے ہیں اور اسی برادری کے مخالفین کو دبانے کی کوشش کیجاتی ہے گو یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں سیاست اور ووٹ مفادات کا ہوتا ہے

جہاں جسکو کوئی مفاد نظر آتا ہے وہ اسی چوکھٹ کا رخ کرتا ہے ایسے موقعوں پر ملکی و عوامی مفادات کی باتوں اور دعوؤں میں بظاہر کوئی حقیقت نہیں ہوتی کیونکہ ملکی انتخابات کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر نئی قائم ہونے والی حکومت خواہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی ہو وہ اجتماعی سوچ کی بجائے اپنے حامیوں کو فائدے پہچاتی ہے انکے یہ دعوے کہ ہم اقتدار میں آکر عوام کی تقدیر بدل دینگے تقدیر تو نہیں بدلتی اگرچہ عوام کے مسائل میں اضافے کی تمام تر تدبیریں ضرور عمل میں لائی جاتی ہیں عام انتخابات کے انعقاد اور گہما گہمی کی صورت میں سیاسی نمائندے گلی کوچوں کا رُخ کر لیتے ہیں ہر کسی کی غمی اور خوشی میں شریک ہونا اپنا فرض سمجھتے ہیں اپنے ڈیروں پر میٹنگز اور کھانے کا اہتمام کیاجاتا ہے ناراض دھڑوں کو راضی کرنے کی کوشش کیجاتی ہے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلیے ہم خیال ہمنواؤں کے چینل متحرک کیاجاتے ہیں سڑکوں بجلی کے کھمبوں اور گلی کوچوں کے موڑ پر بڑے بڑے بینرز آویزاں کیے جاتے ہیں جلسوں کارنر میٹنگز اور ریلیوں میں عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے تقریروں کی آڑ میں بلند وبانگ دعوے کیے جاتے ہیں خوشنما خواب اور دلفریب نعروں کے جال میں سادہ لوح عوام کو پھنسایا جاتا ہے

منتخب بلدیاتی نمائندوں کو بھی انتخابات میں کردار ادا کرنے کی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں یہ تمام کھیل انتخابات کے شروع سے لیکر نتائج کے اختتام تک بڑی مہارت سے کھیلاجاتا ہے کامیاب کی صورت میں مخصوص طبقہ مفادات حاصل کرتا ہے جبکہ اسکے برعکس عام عوام کے اجتماعی مسائل پر ہرگز سنجیدہ اقدامات نہیں کیے جاتے عوام سے گزارش ہے کہ وہ آمدہ انتخابات میں سوچ سمجھ کر ضمیر کی آواز پر اپنا ووٹ کاسٹ کریں اور ایسے باکردار امیدوار کا انتخاب کریں جو عوام کے اجتماعی مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو مفاداتی سیاست دانوں اور انکے ہواریوں سے دور رہیں جنکا مطمع نظر صرف اپنے ذاتی مفادات تک محدود ہے عوام سے نہ ہی انکی ہمدردیاں ہیں یا بلا واسطہ یا بلواسطہ عوامی مسائل حل کرنے میں انکی کوئی دلچسپی ہے انتخابات قریب ہیں لہذا ووٹ کاسٹ کرتے وقت فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں