سکھ دکاندار کا ناحق قتل

رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کی آمد کیساتھ ہی دنیا بھر کے ممالک میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی جاتی ہے تاکہ روزہ دار اس ماہ مقدسہ میں باآسانی روزمرہ استعمال اور کھانے پینے کی چیزیں باآسانی خرید سکیں تاہم ہمارے ملک کا دستور نرالہ ہے رمضان سے قبل تو قیمتی کم ہوتی ہیں مگر ماہ صیام شروع ہوتے ہی ذخیرہ اندوز حرکت میں آجاتے ہیں اور روزمرہ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان کو چھو ے لگتی ہیں حکومت بھی ان قیمتوں کواعتدال پر لانے میں بے بس دکھائی دیتی ہے تاہم اس دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو رمضاں المبارک میں مستحقین میں مفت راشن تقسیم کر کے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں پاکستان میں آئے روز قتل کی وارداتوں کا رونما ہونا معمول بن چکا ہے شیطان اس قدر غالب ہے کہ ہمارے دلوں میں صبر وتحمل برداشت اور غصیلے پن نے بسیرا کر لیا ہے ایک انسان کے ناطے انسانیت کی ترقی، بھلائی اور خوشحالی کیلئے ہمیں رات دن سرگرم عمل ہونا چاہیے آسانیاں بانٹنا ہمارا مشن ہونا چاہیے مگر یہاں سب الٹ گھومتا ہے کچھ دن قبل یہ خبر سن کر دل رنجیدہ ہوا جب خیبر ایجنسی کے جمرود بازار کا ایک دکاندار اورخالصہ کریانہ سٹور” کا مالک اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے دوکاندار نرنجن سنگھ کو قتل کردیا گیااس سکھ دوکاندار کا جرم صرف اتنا تھا کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو وہ اشیاء کی قیمتیں قیمت خرید سے بھی کم کر دیا کرتا تھا وہ کہتا تھا کہ روزہ داروں کی دعائیں ہی میرے لئے کافی ہیں ہم گیارہ ماہ اپنے لئے کماتے ہیں تو پھر کیوں نہ ایک ماہ میں دوسروں کو فائدہ پہنچائیں وہ ماہ مبارکہ میں اشیائے خوردونوش کے تمام اشیاء کی قیمتوں میں نمایاں کمی کر دیتا تھا تاہم مافیا اسکے اس اقدام سے ناخوش تھے کیونکہ رمضان میں قیمتیں بڑھانے اور منافع خوری کا نشہ ان پر غالب تھا اور عوام کو لوٹنے کا ناجائز بہانہ،مگر نرنجن سنگھ کی کم قیمت پر اشیائے خوردونوش کی فروخت سے انکو اپنے عزائم کی تکمیل میں ناکامی نظر آ رہی تھی اس لئے نرنجن سنگھ کی زندگی کا خاتمہ کروا دیا گیا‘ ایسے بہت سے واقعات اس سے قبل بھی رونما ہو چکے ہیں جن میں مخلوقِ خدا کیلے آسانی پیدا کرنے والوں کو قبر تک پہنچا دیا گیا ہے ایک اور واقعے میں پشاور میں تھانہ رحمان بابا کی حدود دیر کالونی روڈ پر سکھ پنساری کو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے دوکان کے اندر قتل کر دیا تھا وہ ہر روز ڈبگری سے کوہاٹ روڈ پر اپنی پنساری کی دکان پر جاتے تھے اور پانچ بجے واپس آتے تھے صرف دو ہزار روپے ماہانہ کرائے کی دوکان میں گھر والوں کامشکل سے پیٹ پالتے تھے تاہم نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے انہیں فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔ اس سے قبل گزشتہ سال مئی میں انکے دو کزنز رنجیت سنگھ، اور کول جیت سنگھ کو بھی نواحی علاقہ سربند بٹہ تل بازار میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کی دہشت گردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج ہوئی تھی جائے وقوعہ سے 30 بور پستول کے خول اور دیگر اہم شواہد اکٹھا کرکے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کر لی گئی تھی چیئرمین منیارٹی رائٹس فورم رادیش سنگھ ٹونی نے ایکسپریس ٹربیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پشاور میں دن دیہاڑے سکھ دکاندار کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا، اس پہلے 27 سکھ کمیونٹی کے لوگوں کو ٹارگٹ کلنگ میں قتل کیا جا چکا ہے اور یہ 28 واں واقعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور ہم اس دہشتگردانہ واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہیں اُن کا کہنا تھا کہ کل کراچی میں ایک ہندو ڈاکٹر کو قتل کیا گیا اور آج ایک سکھ دکاندار کو گولیاں مار کر پشاور میں قتل کر دیا گیا جو انتہائی افسوسناک ہے، ذرا سوچیں ایسے معاشرے میں اچھائی کے راستے پر چلنا کس قدر دشوار ہے ایک انسان کا ناحق خون بہانا پوری انسانیت کے خون بہانے کے مترادف ہییہ لوگ کیسے قیامت کے دن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا منہ دکھائیں گے؟ اور کس طرح اپنے آپ کو شفاعت کا حقدار ٹھہرائیں گے؟ اس قتل کے واقعے کو نرنجن سنگھ کی ذاتی دشمنی کا رنگ دینے کی بھی کوشش کی گئی،مگر مقامی لوگ سچ بولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نرنجن سنگھ کو صرف اشیائے خوردونوش کی کم قیمتوں کے جرم کی سزا دی گئی ہے حکومت کو چاہیے کہ نرنجن سنگھ جیسے درد دل رکھنے والوں کے قاتلوں کو عبرت ناک سزا دی جائے جو محض لالچ کی بنا پر انسانیت کا ناحق خون بہانے سے دریغ نہیں کرتے دعا ہے کہ،اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائے اور غریب عوام کو امیروں کے تسلط سے بچائے اور مملکت خداد کو ترقی و خوشحالی عطا فرمائے۔آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں