179

پوسٹ آفس چک بیلیخان عوام کیلئے زحمت بننے لگا

مسعود جیلانی،پنڈی پوسٹ/پوسٹ آفس چک بیلی خان علاقہ کے سب سے بڑے مرکز میںہونے کی وجہ سے علاقے کے مرکز ی ڈاکخانے کی حیثیت رکھتا ہے اس کی اس حیثیت کی وجہ سے علاقے کے لوگ زیادہ انحصار اسی ڈاکخانے پر کرتے ہیں مختلف محکموں کے پنشنرز کی پنشنز بھی اسی ڈاکخانہ میں آتی ہیں اگرچہ محکمہ ڈاک میں کرپشن کے مواقع کم ہوتے ہیں لیکن محکمہ ڈاک چک بیلی خان کے ملازمین ان کم مواقع کو بھی ضائع نہیں ہونے دیتے اور ان سے بھی سو فیصد فائدہ اٹھاتے ہیں پنشنرز کو ڈاکخانے سے باہر لمبی قطاروں میں بٹھا دیا جاتا ہے جہاں پینے کا پانی بھی میسر نہیں پنشن حاصل کرنے والوں کو محلے والوں کی طرف سے رکھوائی گئی مٹی سے پانی پینا پڑتا ہے بزرگوں اور خواتین کو کیش نہ آنے کا بہانہ بنا کر شام تک بٹھایا جا تا ہے

اور بعض اوقات تو شام تک انتظار کے بعد اگلے دن کا وقت دے دیاجاتا ہے پنشن کی کاپیا ںجمع کر لی جاتی ہیں پھر اپنے ٹاﺅٹوں کے ذریعے زیادہ پیسے دینے والے کو اندر بلوا کر پنشن دی جاتی ہے اور کم پیسے دینے والوں کو کھڑکی کے سوراخوں سے آواز دے کر پہلے بلایا جاتا ہے اعلیٰ دفتری عہدوں پر کام کرنے والے اور بالخصوص خواتین اس ماحول میں پیسے دے کر پنشن حاصل کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں پنشن دینے کی ان تاریخوں میں محکمہ ڈاک کے ریٹائرڈ ملازمین بھی ڈاکخانہ آ پہنچتے ہیں اور سفارشی بن کر خوب کمائی کرتے ہیں بات یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ پنشن راﺅنڈ فگر میں دی جاتی ہے اور اوپر کی رقم اہلکار اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں ڈاکخانہ باہر پنشنرز اور اندر وی آئی پی لوگوں کے اجتماع کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے جب پنشن کے یہ دن ختم ہو جاتے ہیں تو ڈاکخانے کو اندر سے کنڈیاں
لگا لی جاتی ہیں اور ایک آدھ ملازم کو بٹھا دیا جاتا ہے جو مرضی سے لوگوں کو ڈیل کرتا ہے لوگ باہر ذلیل و رسوا ہوتے رہتے ہیں

اگر کوئی سفارش سے بڑے بابو صاحب سے اس عمل کی شکایت کرے تو وہ اعلیٰ افسران کو برا بھلا کہہ کر عملے کی کمی کا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں پنشن کے د ن گذرنے کے بعد اگرچہ بابو صاحبان ڈاکخانہ میںنہیں ہوتے تاہم ان کی کمائی کا پہیہ پھر بھی چلتا رہتا ہے سوئی گیس وغیرہ کے ڈیمانڈ نوٹس روک لئے جاتے ہیں جوبعد میں اپنے ٹاﺅٹوں کے ذریعے پیسے لے کر دئیے جاتے ہیں کچھ روز قبل اسی بات پر کچھ لوگ میڈیا ٹیم اور کچھ معززین کو ساتھ لے کر ڈاکخانے پہنچے تو وہاں موجود عثمان اور بشیر نامی کلرکوں نے ڈاک گھروں تک نہ پہنچانے کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس پر معافی بھی مانگی حال ہی میں کرونا وائرس کی وبا آنے پر وفاقی وزیر جناب مراد سعید صاحب کی جانب سے پنشنروں کو پنشن گھروں پر دینے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن پوسٹ آفس چک بیلی خان میں ایسا کوئی عمل دیکھنے کو نہیں ملا سینکڑوں لوگ ڈاکخانے کے باہر جمع تھے

جنہیں عام آدمیوں نے پولیس بلا کر ہٹوایا جبکہ پوسٹ آفس کا عملہ اپنے دوستوں کو آفس میں بٹھا کر خوش گپیوں میں مصروف رہا عوامی حلقوں نے وفاقی وزیر جناب مراد سعید کے دعوﺅں سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ اگر چک بیلی خان کے پوسٹ آفس کو دیکھا جائے توجناب مراد سعید کے دعوﺅں میں کوئی سچائی نظر نہیں آتی اور یہاں کے عوام ان کی وزارت کے نمبر ون ہونے پر بھی اپنا ووٹ نفی میں ڈالتے ہیں اور جناب مراد سعید کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ چک بیلی خان آکر اپنے اس ڈاکخانہ کی حالت خود دیکھیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں