columns 94

پاکستان کیسے ٹوٹا؟

پاکستان اور بنگلہ دیش میں بظاہر جمہوری حکومتیں قائم ہیں لیکن دونوں ممالک میں 1971ء کے واقعات سے متعلق پورا سچ بولنا اور لکھنا بہت مشکل ہے بہت سے حقائق پاکستان میں نئی نسل سے چھپائے جارہے ہیں اور باون سال بعد بھی سقوط ڈھاکہ بالفاظ دیگر سقوط مشرقی پاکستان پر جھوٹ بولا جارہا ہے اسی طرح بنگلہ دیش میں بھی کچھ افسانوں کو تاریخ کا رنگ دے کر پیش کیا جاتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حقیقت اور افسانے میں فرق سامنے نظر آرہا ہے اور پاکستان کے حکمران طبقے نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھاتاریخی شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی تحریک چلانے والی آل انڈیا مسلم لیگ 30دسمبر1906کو ڈھا کہ میں قائم ہوئی تھی تحریک پاکستان میں بنگا لیوں نے بہت اہم کر دار ادا کیا اور 23مارچ 1940ء کو قرار دادلاہوریعنی قرار دار پاکستان بھی ایک بنگالی لیڈر اے کے فضل الحق نے پیش کی تھی قیام پاکستان کے تھوڑے عرصے بعد ہی قائد اعظم محمد علی جناح اس دار فانی سے کوچ کر گئے

اُردو کو قومی زبان قرار دینے پر قائد اعظم کی زندگی میں ہی مشرقی پاکستان میں بے چینی پید اہوئی لیکن مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں نفرتوں کا آغاز 1958ء میں مارشل لاء نا فذ ہونے کے بعد ہوا جنرل ایوب خان نے1956ء کا آئین معطل کر دیا اور جب انہوں نے 1962ء میں صد ارتی آئین نافذ کرنے کا منصوبہ بنایا تو اُن کے بنگالی وزیر قانون جسٹس ریٹائر محمد ابراہیم نے جنرل ایوب خان کو روکنے کی کوشش کی تو وزیر قانون نے صدر پاکستان کو وار ننگ دی تھی صدارتی آئین پاکستان تو ڑ دے گا پاکستان کے فوجی صدر نے بنگالی وزیر قانون کی وار ننگ نظر انداز کر دی اس صدارتی آئین کے خلاف مشرقی پاکستان کے گورنر جنرل اعظم خان نے بھی استعفیٰ دے دیا ایوب خان اپنی ضد پر قائم رہے اور انہوں نے ایک پنجابی جج جسٹس ریٹا ئر ڈ محمد منیر کو اپنا وزیر بنا لیا نئے وزیر قانو ن کو یہ زمہ داری سونپی گئی کہ وہ کسی طرح بنگالیوں سے جان چھڑا ئیں 1962ء میں وزیر قانون بنانے کے بعدجنرل ایوب خان نے نئے پنجابی وزیر قانون کو ایک بنگالی وزیر رمیض الدین کے پاس بھیجا کہ رمیض الدین کو کہو کہ آپ ہم سے علیحدگی اختیار کر لیں یا کنفڈیشن بنا لیں

رمیض الدین نے جواب میں کہا کہ ہماری آبادی 56فیصد ہے ہم اکثریت میں ہیں آپ اقلیت میں اس اگر آپ علیحد ہ ہونا چاہتے ہیں تو بے شک علیحدہ ہو جائیں لیکن اصل پاکستان تو ہم ہیں جس کی شہادت سے پتہ چلتا ہے کہ جنرل ایوب خان بنگالیوں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تھے کیونکہ وہ صدارتی نظام کے خلاف تھے یہی وہ سال تھا جب تحریک پاکستان کے رہنما حسین شدید د بیمار ہو گئے اور علاج کے لئے بیروت گئے وہاں ان کی پراسرار حالات میں موت واقع ہو گئی اُسی زمانے میں شیخ مجیب الرحمن کے مو قف میں بہت شدت پیدا ہو گئی اس دوران محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے خلاف 1965ء کے صدارتی الیکشن میں حصہ لیا تو مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الر حمن نے فا طمہ جناح کی حمایت کی لیکن ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کو انڈین ایجنٹ قرار دے دیا دھو نس اور دھاندلی سے محترم فاطمہ جناح کو شکست سے دو چار کر دیا محترمہ فاطمہ جناح ڈھا کہ سے جیت گئیں لیکن مغربی پاکستان سے ہار گئیں محترمہ فاطمہ جناح کی شکست نے بنگالیوں کو پاکستان سے مایوس کر دیا اس مایوسی کا نتیجہ 1966ء میں شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کی صورت میں سامنے آیا پہلا نقطہ یہ تھا کہ حکومت کا کردار وفاقی اور پار لیمانی ہونا چاہیے

اصل لڑائی صدارتی نظام کے خلاف تھی پھر 1968ء میں شیخ مجیب الرحمن کو اگر تلہ سازش کیس میں مات کر دیا گیا اس کے بعد ایوب خان شیخ مجیب الرحمن پر پاکستان کے خلاف سازش کا الزام لگا دیا الزام عدالت میں ثابت نہ ہو سکا اور شیخ مجیب کی مقبولیت مزید بڑھ گئی شیخ مجیب الرحمن سے ایک انٹر ویو میں پوچھا گیا کہ موجودہ بحران کا حل کیا ہے؟ مجیب الرحمن نے جواب میں کہا کہ 1956ء کا آئین بحال کر دیں اس واقعے کے ایک سال بعد سات دسمبر 1970ء کو پاکستان کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے جس میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے قومی اسمبلی اور مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کر نے سے گریز کیا گیا یہ بہت اہم ہے کہ مشرقی پاکستان میں سیاسی بغاوت سے پہلے فوجی بغاوت ہوئی 25مارچ1971ء کی درمیانی شب چٹا گا نگ میں آٹھ ایسٹ بنگال رجمنٹ کے میجر ضیا ء الرحمن نے اپنے کما نڈ نگ آفیسر کر نل جنجوعہ کو قتل کر کے ریڈیو سے آزاد ی کا اعلان کر ا دیا یہ میجر ضیاء الرحمن وہی تھے جنہوں نے بعد میں جنرل بن کر بنگلہ دیش میں مارشل لاء لگایا اور پاکستان کے دوست بن گئے پاکستان میں لوگوں کو یہ تو بتا یا جا تا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان کے خلاف بغاوت کی لیکن جو ظلم ضیاء الرحمن نے کرنل جنجوعہ کے ساتھ کیا اس کی قیمت عوامی لیگ ادا کرتی رہی اور عوام کو جنرل ضیاء الرحمن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا

سقوط ڈھا کہ کے با ون سال بعد مغربی پاکستان کے ان شا عروں ادیبوں اور سیاستدانوں کے غدار کہا جاتا جنہوں نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی سولہ دسمبر 1971ء کے ہتھیار ڈالنے کے بارے میں اہم ترین حقیقت یہ ہے کہ یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں اپنے کما نڈر جنرل امیر عبد اللہ نیازی کو ہتھیار ڈالنے کا نہیں بلکہ سیز فائر کے لئے اقدامات کرنے کا حکم دیا تھا یحییٰ خان نے بتایا تھا کہ میں نے جنرل امیر عبید اللہ نیازی کو ہتھیار ڈالنے کا نہیں کہا تھا بلکہ اسے کہا تھا کہ یو این کو بولو کہ سیز فائر کر ادے اور دشمن کے آگے ہتھیار پھینکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پاکستانی فوج نے مشرقی محاذ پربڑی جرات اور مستقل مزاجی کا مظاہر ہ کیا تھا 16دسمبر 1971ء کو جنرل نیازی کے پاس تیس ہزار فوج تھی اگر نیازی کچھ دن مزاحت کرتا تو شایدیواین او سیز فائر کر ادیتا

لیکن جنرل نیازی کو جب یہ کہا گیا کہ اگر تم ہتھیار پھینک دو تو تمہیں مکتی با ہنی کے حوالے نہیں کیا جائے تو جنرل نیازی ہتھیار پھینکنے کے لئے مان گیا مارچ 1971ء میں جنرل امیر عبداللہ نیازی نے ایک میٹنگ میں بنگالی افسروں کی موجود گی میں کہا تھا کہ میں اس حرامزادی یعنی بنگالی قوم کی نسل بدل دوں گا اس واقعے کے بعد ایک بنگالی افسر نے کما نڈ ہیڈ کو ار ٹر زکے باتھ روم میں اپنے آپ کو گولی مار کر خودکشی کر لی تھی جنرل نیازی نے بنگالیوں کو ان کی نسل بدلنے کی دھمکی دی تھی اور پاکستان کا جغرافیہ بدل کر واپس آیا اس کی نگرانی میں جو ظلم وستم ہو ا اُس کو گواہی بہت سے فوجی افسران نے دی لیکن یہ کہا درست نہیں کہ فوجی آپریشن میں 30لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا گیا اور دو لاکھ عورتوں کا ریپ ہو ابنگالیوں کے ساتھ بہت ظلم ہوا لیکن مکتی با ہنی نے بہاریوں کے ساتھ بہت ظلم کیا اور ان بہاریوں کو آج کے پاکستان کے حکمران فراموش کر چکے ہیں جنرل نیازی کم ازکم دو ہفتے تک ڈھا کہ کا دفاع کر سکتے تھے وہ ہتھیار ڈالنے کے بجائے اپنی جان قربان کر دیتے تو آئندہ نسلیں انہیں ایک عظیم ہیرو کے طور پر یاد رکھیں انہوں نے ہندو جنرل کو گار ڈ آف آنر کا حکم دے کر ملک اور فوج کی عزت خاک میں ملا دی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں