133

ویلنٹائن ڈے

تاریخ عالم کے صفحات عورت کے رنگا رنگ کردار سے بھرے پڑے ہیں۔ ایک طرف وہ دنیا کے پہلے قتل کی وجہ بنی تو دوسری طرف نسل انسانی کی بقا کی ضامن ٹھہری۔ ماں کے روپ میں آئی تو خون جگر سے اولاد کو پروان چڑھایا۔بیوی کا روپ اپنا یا تو شو ہر کو جگمگایا۔بہن کے روپ میں بھائی پر صدقے واری ہوئی۔بیٹی کے روپ میں با پ کی آبرو بنی۔اس کے ناموس پر کڑیل جوانیاں آگ میں کود پڑتی ہیں۔کہیں شمع محفل تو کہیں شرم و حیا کا پیکر، الغرض وجود انسانی نے چشم فلک سے عورت کے سینکڑوں رنگ اور ہزاروں روپ دیکھے۔ مگر یہ مسئلہ ہر دور ہر قوم میں زیر بحث رہا کہ معاشرے میں عورت کا صحیح مقام کیا ہے۔موجودہ دور میں مغربی تہذیب، مغربی افکار اور مغربی تعلیم کے زیر اثر جہاں مشرقی اقدار سے دوری اور مذہب سے بیگانگی عام ہوئی وہاں عورتوں کو یہ احساس پیداہوا۔بلکہ پیداکیا گیاکہ وہ صرف گھروں میں بند رہ کر کام کاج تک محدودنہ رہیں بلکہ چار دیواری سے نکل کر زندگی کی دوڑ میں مردوں کے شانہ بشانہ حصہ لیں اور اس مقصد کے لیے اہل مغرب نے عورت اور مرد کی مساوات کا نعرہ اس زور سے لگایا کہ آج عورت وہ ہر کام کرنا اپنا فطری حق سمجھنے لگی جو اب تک مردوں کا حصہ رہا۔اسلام نے ہر مقام پر عورت کے حق کا تحفظ کیا اور انہیں ایک دوسرے کا لباس قرار دیا۔شاید اس سے بہتر تحفظ کسی مذہب نے نہیں کیا۔وہ قومیں جنہوں نے اسلام ہی کی تقلید میں عورتوں کو عزت عطا کی۔مگر افسوس آج آزادی نسواں میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ بے راہ روی کے سانچے میں ڈھل کر فحاشی کی تما م حدوں کو چھو رہی ہے۔اخبارات کے صفحات ہو ں یا ٹیلی ویژن کی سکرین، ادبی تقاریب ہو یا سیاسی ہنگامے، ہر جگہ عورت کے وجود کو تماشا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔وہ عورت جو چراغ خانہ تھی شمع محفل بن کر اپنی آبرو گنو ابیٹھی۔افسوس صد افسوس کہ اب نوبت یہاں تک آچکی ہے۔ لاالہ الا اللہ کے نظریے پر قائم ہونے والی ریاست پاکستان میں آزادی کے ساتھ اس دیدہ دلیری سے میرا جسم میری مرضی کے پلے کارڈہاتھوں میں اٹھائے مغربی دنیا کے ساتھ(Valentine day)ویلنٹائن ڈے منا رہی ہیں۔ ہمارا مذہب جن خواتین کو سر بازار زیب و زینت کی اجازت نہیں دیتا وہ بیہودہ لباس پہنے سڑکوں پر مارچ کر رہی ہیں۔اسلام اس تذلیل کی ہر گز اجازت نہیں دیتا۔ جہا ں جدت کے نام پر بے عزتی کو عام کیا جا رہا ہو۔ ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والے حکمرانوں سے التماس ہے کہ جو لوگ عورت کے حقوق کی آڑ میں فحاشی کو دعوت دے رہے ہیں۔ان کو روکا جائے کیونکہ اسلام ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ ہماری تاریخ کا وہ عظیم واقعہ جب ایک جنگ میں کچھ قیدی حضورﷺ کے سامنے پیش کیے گئے۔ان میں حاتم طائی کے قبیلے کی ایک لڑکی بھی تھی۔اسے بھی زنجیر پہنائی گئی۔ وہ بے پر دہ تھی، میرے آقا نے دشمن لڑکی کو جو کہ بے پردہ تھی۔ دیکھا تو اپنی مبارک چادر اس کے چہرے پر تان دی۔ آج بے راہ روی ہمارے معاشرے کو تباہ کر رہی ہے۔ اے بنت حواتو اس حیا سوز ماحول میں بتول بن کر خود کو باپردہ بنالے تا کہ تیری گود میں حسن و حسین ؓپرورش پا سکے۔ اور اے ابن آدم تم عورتوں کے نگہبان ہو اس کو تحفظ اور سائبان کی ضرورت ہے اور اس کے قدموں تلے جنت ہے۔ ڈرو اس دن سے جب بیٹیاں ڈھال کے بجائے جہنم کا سبب بن جائیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں