216

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد


انسان کو بیدار تو ہو لینے دو ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
قومیں پیدا ہوتی ہیں مٹ جاتی ہیں۔بستیاں آباد ہوتی ہے اجڑ جاتی ہیں۔ شخصیتیں پیدا ہوتی ہیں مر جاتی ہیں۔داستانیں مرتب ہوتی ہیں محو ہو جاتی ہیں۔یہ عمل روز اول سے جاری ہے اور جاری رہے گا۔لیکن ایک داستان رقم ہے جو تاریخ کے صفحات پر آج بھی اس طرح روشن ہے جس طرح چودہ سوسال پہلے تھی۔فاطمہ کے لخت جگر نے اپنے نانا کے مقدس دین کے رحیا کے لیے جو قربانی کا جو معیار قائم کیااس کی مثال نہیں ملتی۔میدان کربلا میں خوف و ہراس کا یہ عالم کہ حد نظر تک پھیلے ریگزاروں میں خاندان رسالت کا یہ مختصر سا مقدس قافلہ درندہ صفت انسانوں میں گھیرا ہوا ہے۔سورج کی شعاعیں پڑتی تو زمین کے ذرے شرارے بن جاتے ہیں۔ بے نیام تلواریں اس مقد س قافلے پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔ہر نظر سفاک اور ہر آنکھ گستاخ اور بے باک دکھائی دیتی ہے۔شر کے اس طوفان بدتمیزی میں کسی ایک زبان سے بھی خیر کی آواز سنائی نہیں دیتی۔سلامتی کے تمام دروازے بند ہیں لیکن کچھ پاک سر ہیں جو ایسے ماحول میں بھی اللہ کے حضور سر بسجود ہیں۔عاشور کی صبح اس دشت مصائب میں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جگر گوشوں کو آہ افغاں کرتے ہوئے دیکھنا۔پھر ان میں سے ہر ایک ایک کی خون آلود لاشیں اپنے ہاتھ سے اٹھانا۔اپنے شیر خوار کو تیروں کی نظر کرنا۔تپتے صحرا میں لاشے کٹوانا۔ذرا چشم تصور سے دیکھیں اس عظیم کاروان کی شام غریباں۔خیموں سے دھواں اٹھ رہاہے۔اہل بیت کے لاشے گھوڑوں کے سموں سے کچلے جارہے ہیں۔کسی کا ہاتھ لاشے سے جدا ہے تو کسی کا سر تن سے جدا ہے۔یہ اس جوان کی لاش ہے جو حیدر کرار کے دل کا چین ہے۔ کربلا کے ذرے اس منظر کو آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ گویا نظام فطرت میں زلزلہ آگیا۔تپتا ہواصحرا ہے۔ گلشن رسالت کی کلیاں مرجھا رہی ہیں علی اصغر تشنہ لب ہیں پانی پانی کی صدا بلند ہو رہی ہے۔ہاشمی خیموں میں عابد کی بیماری اور زینب کی بے قراری ہے۔سورج ڈھلنے کے قریب آچکاہے مگر شبیر ؓپہ ژالہ باری ہے۔امام عالی مقام کا سینہ زخموں سے چور چور ہے مگر تلواروں کے سائے میں نماز عشق ادا ہو رہی ہے۔حسین ؓایک شخصیت ہی نہیں آفاقی پیغام ہے،ہردور کے مظلوم اور مجبور انسانوں کے لیے حسین ؓ ایک مذہب ہے جو ہمیشہ طاغوتی طاقتوں سے ٹکرانا سکھاتا ہے۔سلام اس محسن پر جس نے اپنے خون سے تمہارے لیے عظمت کی شاہراوں پہ چراغ جلائے۔

نہ مسجد میں نہ بیت اللہ کے دیواروں کے سائے میں

نماز عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں