125

سرصوبہ شاہ بھکاریوں کی آماجگاہ

صبح ہوتے ہی سر صوبہ شاہ کی جانب پیشہ ور بھکاریوں کے ٹولے نمودار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔جن میں کچھ پیدل کچھ پبلک ٹرانسپورٹ اور کچھ رکشہ یا کیری ڈبہ پر شفٹ کی صورت میں روازنہ اس انداز میں چوک میں اترتے ہیں جیسے کوئی سرکاری نوکری کر رہے ہوں۔صبح ہوتے ہی کچھ مخصو ص لوگ شاید ان کی ایما پر سارا دن بھیک مانگتے ہیں ان کو مختلف چوراہوں میں ایڈجسٹ کر کے چلے جاتے ہیں اسی طرح شام ڈھلتے ہی ان کی واپسی شروع ہو جاتی ہے۔یہ کہاں سے آتے ہیں کہاں رات گزارتے ہیں ان کی مستقل رہائش کہاں ہے ان کے پیچھے کون ہے کس پرسنٹیج(Parcentege)پر یہ کام کرتے ہیں ان میں کتنے حقیقی طور پر معذور ہیں اور کتنے ڈرامے کرکے بیٹھے ہیں ان تمام سوالوں سے اہلیان سر صوبہ شاہ بے خبر ہیں’

بس دکاندار لوگ روزانہ کی بنیاد پر صدقہ خیرات سمجھ کران کو دے دیتے ہیں انہیں اس بات کا کوئی علم نہیں ہوتا کہ ان کا دیا ہوا پیسہ کہاں خرچ ہو رہا ہے کیا پتہ یہی پیسہ وطن عزیر کی جڑیں کا ٹنے پر ہی خرچ ہو رہا ہو۔حال میں ہی سر صوبہ شاہ بازارمیں عورت بھکارن سے یہ پوچھا گیا کہ تم کہاں سے آئی ہوتو اس نے پر اعتماد میں بتایا کہ وہ راولپنڈی کھنہ پل سے ہفتہ میں تین سے چار بار آتی ہے۔اتنے دور سے جب یہاں آنے کی وجہ پوچھی گئی تو بتا یا گیا کہ یہاں کے لوگ زیادہ امیر ہیں اور ہمیں کسی اور جگہ کی نسبت اچھی دیہاڑی ملتی ہے یہ بات بھی ہمارے لیے لمحہ فکریہ تھی کہ راولپنڈی جیسے شہر کو چھوڑ کر یہ لوگ یہاں کا رخ کیوں کرتے ہیں شاید ہمارے علاقے میں بڑھتی ہوئی وارداتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہو۔صبح سے شام تک یہ پیشہ ور بھکاری نہ صرف سرصوبہ شاہ کے نہ صرف دکانداروں سے بلکہ کسٹمر سے بھی ہزاروں روپے بٹور لیتے ہیں آپ جس دکان پر چند منٹ کے لیے رک جائیں یہ لوگ وہاں فوراًنمودار ہو جاتے ہیں ہم بھی اپنی چودراہٹ کی وجہ سے چکر میں یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ اس کے حق دار بھی ہیں یا نہیں فور۱ً اپنی جیب میں سے دس بیس روپے نکال کر دے دیتے ہیں اب ان کی بد معاشی اس قدر ہو چکی ہے کہ اگر آپ کی جیب سے ٹوٹے ہوئے دس بیس نہ نکلیں تو ڈر ہوتا ہے کہ کہیں یہ کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں جس سے ہماری بے عزتی ہوجائے یعنی نہ چاہتے ہوئے بھی ہم دینا ضروری سمجھتے ہیں۔

روک ٹوک نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ڈر ہے کہ کہیں یہ پیشہ ور بھکاری یہاں گینگ کی شکل نہ اختیار کرجائیں۔کچھ ایسے بھکاری بھی ہیں جو ہر مخصوص شخص سے ہفتہ وار بھتہ لیتے رہتے ہیں۔مگر بدقسمتی سے نہ تو ہمارے تاجر حضرات کوئی روک ٹوک کرتے ہیں نہ ہماری انتظامیہ اس سلسلے کو سنجیدہ لے رہی ہے۔جس کا خمیازہ اہل علاقہ کو بھگتنا پڑتا ہے۔یونین تاجران کو چاہئے کہ اس سلسلے پر فوری طور پرتمام تاجر برادری کو باور کرائے کہ کسی قسم کا کوئی پیسہ اس پیشہ ور بھکاریوں کو نہ دیا جائے اور انتظامیہ کو ان کی چھان بین یقینی بنانی چاہئے تاکہ ان کے پیچھے خفیہ ہاتھ سامنے آئیں۔یہ لوگ نہ صرف سفید پوش لوگوں کا جینا دوبھر کر رہیں ہیں بلکہ ڈر ہے کہ کسی بڑی واردات کے سہولت کار نہ بن جائیں اور پھر ہمارے پاس ہاتھ ملنے کو سوا کچھ نہ رہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں