165

میرے وطن کی سیاست

میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھ
گھری ہوتی ہے طوائف تماش بینوں میں
وہ ملک جہاں انصاف سر بازار بکتا ہو۔ وہ ملک جہاں زلزلے برپا ہوتے ہیں ضمیر فروش سونے کے متلاشی بن کرشہر خاموشاں کے مکینوں کے ہاتھ کاٹ دیتے ہیں۔وہ ملک جہاں رشوت اور سفارش پر کردار بکتے ہیں۔ وہ ملک جہاں سڑکیں بننے سے پہلے ٹوٹتی ہیں اور عمارتیں تعمیر ہونے سے پہلے منہدم ہو جایا کرتی ہیں۔ وہ ملک جہاں شیعہ،دیوبندی،بریلوی،پہلے اور مسلمان بعد میں ہیں۔ وہ ملک جہاں پنجابی، بلوچی،سندھی،پٹھان اور کشمیری بستے ہیں پاکستانی نہیں۔وہ ملک جہاں پانیوں کے ذخیروں کی بات چلے تو لوگ دست وگریباں ہو جائیں۔وہ ملک جہاں گوادر یاگومل زا ڈیم بنتے ہیں تو چائنیز اور جرمن بھون ڈالے جاتے ہیں۔ اس ماں کے لیے اس آزادی کی کوئی اہمیت نہیں جس کا بیٹا غربت کے ہاتھوں تنگ آکر مینار پاکستان سے چھلانگ لگا گیا۔اس مفلس کے لیے اس آزادی کی کوئی اہمیت نہیں جو راولپنڈی کی جلتی دوپہروں میں ننگی فٹ پاتھ پر تڑپ تڑپ کر مر گیاہو۔مادر وطن کو آزاد ہوئے سات دہائیاں گزر چکی ہیں کل بھی غلام تھے آج بھی غلام۔میں اس بدقسمت معاشرے کا فرد ہوں جہاں مظلوم انصاف کے لیے بوند بوند ترستا ہے۔میں اس معاشرے کا فرد ہوں جہاں جلتی دو پہر میں درودیوار سے عاری جل کر مر جاتے ہیں۔ میں ایسے معاشرے کافرد ہوں جہاں کوتوال شہر امن کی سبیل لگانے کی بجائے ظلم کی چکی چلا رہا ہو۔میں اس معاشرے کا فرد ہوں جہاں ایک مفلس بھوک سے مر جاتا ہے اور اس کا پڑوسی اپنے کتے کو دودھ پلاتاہے۔میں اس ملک کا باسی ہوں جہاں مزدور کپڑاتو بنتا ہے مگر اس کی بیٹیاں روز عید کپڑوں کو ترستی ہیں۔جہاں جاگیریں بٹتی ہیں تو جاگیرداروں میں سرمایا بٹتا ہے توسرمایاداروں میں۔ میری روح کا تار تار مسخ ہو رہا ہے میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کیے جا رہے ہیں۔اقتدار کے بھوکے درندے میرے وطن عزیز کی بوٹیاں نوچ رہے ہیں۔ سیاسی پنڈت مادر وطن کو IMFکے ہاتھوں نوالہ تر بناکر بیرونی طاقتوں کو کھلا رہے ہیں۔
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں